خبر ہے کہ حکومت نے اسلام آباد میں ایک سڑک افغان وار لارڈ احمد شاہ مسعود سے منسوب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور سمری بھیجی جا چکی ہے۔ سوال یہ کہ اس فیصلے کا کوئی جواز ، کوئی حکمت اور کوئی بصیرت ہے یا مزاج ِ یار میں جو آتا ہے کر دیا جاتا ہے اور اسی کا نام اب ’’ مثالی طرز حکومت ‘ ہے؟ بتایا جا رہا ہے کہ احمد شاہ مسعود سے یہ سڑک منسوب کرنے کا مطالبہ ان کے بھائی احمد ولی مسعود نے عمران خان سے کیا تھا اور جناب وزیر اعظم نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے تسلیم کر لیا تھا۔ سوال یہ ہے کیا وزیر اعظم نے آگے سے یہ پوچھنے کی کوشش کی تھی کہ شمالی اتحاد کے زیر انتظام علاقہ جات میں کتنی سڑکیں پاکستانی مشاہیر سے منسوب کی جا چکی ہیں اور کیا پورے افغانستان میں کوئی سڑک قائد اعظم ، علامہ اقبال یا کسی بھی پاکستانی شخصیت سے منسوب کی گئی ہے؟ پارلیمانی طرز حکومت بادشاہت نہیں ہوتا کہ شاہ معظم کے جو جی میں آئے وہ کر دیا جائے۔ جمہوری نظام میں ادارے موجود ہوتے ہیں جو ایسے کسی موقع پر عرض کرتے ہیں کہ جناب وزیر اعظم ملک کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ تو کیا پاکستان کے اداروں کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کے قانون کے مطابق سڑک کسی سربراہ سے تو منسوب کی جا سکتی لیکن دوسرے اور تیسرے درجے کی غیر ملکی قیادت سے نہیں ۔ وزارت خارجہ بھی کیا عمران خان لورز کلب میں تبدیل ہو چکی کہ وزیر اعظم کو قانونی نزاکتیں سمجھانے کی بجائے اس نے فیصلے پر عملدرآمد کی ٹھان لی ہے؟ اس فیصلے کی تائید میں وزارت خارجہ کے افسران سے منسوب یہ بیانات گردش کر رہے ہیں کہ احمد شاہ بہت عظیم رہنما تھے اور پاکستان سے ان کے محبت بھرے دیرینہ تعلقات تھے جن کے احترام میں یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ تو کیا وزارت خارجہ نے نئے پاکستان میں نئی تاریخ لکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ احمد شاہ مسعود جتنے بھی بڑے جنگجو رہنما ہوں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ افغانستان کی داخلی کشمکش کا ایک کردار رہے ہیں۔ احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمتیار کی باہمی لڑائی نے کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔اب جب کہ امریکہ علاقے سے جا رہا ہے تو کیا یہ ایک حکیمانہ فیصلہ ہو گا کہ افغانستان کی باہمی کشمکش کے ایک کردار سے سڑک منسوب کر دی جائے۔ کچھ اور کردار بھی موجود ہیں۔ زندہ بھی اور احمد شاہ مسعود کی طرح مرحوم بھی۔ کیا ان کے نام سے سڑکیں منسوب کی جائیں گی یا یہ محبت صرف ایک شخص کے لیے ہے اور کیا ایسے نازک مرحلے پر پاکستان کسی ایسے یکطرفہ فیصلے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ احمد شاہ مسعود کا تعلق شمالی اتحاد سے تھا اور شمالی اتحاد کے پاکستان سے جو ’’ مثالی ‘‘ تعلقات تھے وہ سارے جہان کو معلوم ہیں۔ دفتر خارجہ کے خیال میں بطور رہنما شمالی اتحاد جناب احمد شاہ مسعود کی وہ کون سی محبت اور چاہت اور خدمات ہیں جن کے اعتراف میں ان سے سڑک منسوب کی جا رہی ہے؟ یہ بات بھی صریح غلط بیانی ہے کہ احمد شاہ مسعود پورے افغانستان میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح افغانستان کے منتازع ترین کرداروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی مقبولیت ایک خاص قوم اور ایک خاص علاقے تک ہے۔ افغانستان میں بہت سے دھڑے ہیں ۔ ہر دھڑے کا اپنا وار لارڈ ہے۔ کیا پاکستان کے لیے مناسب ہو گا وہ بلاوجہ کسی ایک دھڑے سے جڑ کر کھڑا ہو جائے ؟ آج کسی مجبوری کی وجہ سے ایک سڑک ان سے منسوب کر کے کیا کل کو اسی اصول کے تحت پندرہ بیس سڑکیں باقی قومیتوں کے رہنمائوں اور وار لارڈز سے منسوب کر دی جائیں گی؟ احمد شاہ مسعود جمعیت اسلامی کے سربراہ تھے۔یہ نہ واحد افغان جماعت ہے نہ بڑی جماعت ہے۔ وہاں گلبدین کی حزب اسلامی ہے ، وہاں طالبان ہیں،دوستم کی جنبش ملی اسلامی ہے ، نسلی ، لسانی بنیادوں پر متعدد دھڑے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیوں؟ اور کس اصول کی بنیاد پر؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ علم و تحقیق کے اس دور میں کیا حکومت کے پاس کوئی ادبی ، علمی ، فکری ، ثقافتی شخصیت موجود نہیں کہ ایک وار لارڈ سے سڑک منسوب کی جا رہی ہے؟ آپ نے پاکستان کو آگے لے جانا ہے یا اسے پتھر کے دور میں دھکیلنا ہے۔ جن لوگوں نے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کا خون بہایا اور اپنا ہی ملک برباد کر لیا کیا آج آپ ان لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں؟ افغانستان میں کیا کوئی ایسا چہرہ موجود نہیں جس کے دامن پر سول وار میں بے گناہوں کے خون کے دھبے نہ ہوں اور اس سے کوئی سڑک منسوب کر دی جائے؟ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان کا مفاد افغانستان سے تعلق رکھنے میں ہے یا وہاں کے متحارب دھڑوں میں سے کسی ایک سے قربت اختیار کرنے میں؟ وزیر اعظم سے کسی وار لارڈ کے بھائی کی سلام دعا ہے اور وہ ان سے ایک درخواست کر گئے ہیں تو لازم نہیں کہ اسے قبول کر لیا جائے۔ ایسے فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے چاہییں اور ملک کا مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے نہ کہ ذاتی تعلقات کو۔ یہ سوال بھی کم اہم نہیں کہ کیا احمد شاہ مسعود سے سڑک منسوب کرنے کا مطالبہ افغان حکومت کا ہے یا ایک فرد واحد کا ؟ کیا ریاستیں ایسے فیصلے ریاستوں کے ساتھ کرتی ہیں یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کرتی ہیں؟ بدلتے حالات میں کل کے حریفوں کا اینگیج کرنے کے پالیسی اچھی ہوتی ہے لیکن اس میں بھی توازن ہونا چاہیے اور اس کا اندا ز معقول سا ہونا چاہیے۔ اعتدال اور توازن ہی ز ندگی کا حسن ہے۔افغان ہمارے بھائی ہیں ان کے کسی صاحب علم ، کسی ادبی ، فکری ، علمی ، ثقافتی شخصیت سے سڑک منسوب کر دیجیے لیکن اس دنیا میں وار لارڈ ز سے سڑکیں منسوب کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔ نجات اور عافیت اسی میں ہے کہ وار لارڈ کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس کلچر نے نہ افغانستان کو کچھ دیا نہ اس میں ہمارے لیے کوئی خیر موجودہے۔ ہم نے بطور معاشرہ اپنے حصے کے وار لارڈز کو ’’ گلوریفائی‘‘ کر کے کیا حاصل کیا ہے کہ اب اسلام آباد کی نئی نسل کو ہم بتانے جا رہے ہیں کہ پیارے بچو یہ بھائی جان بھی ہیرو ہوا کرتے تھے۔ افغانستان میں شاعر ہیں ، ادیب ہیں، اکانومسٹ ہیں ، انجینئرز ہیں ، موسیقار ہیں ، ضروری ہے تو( اگر واقعی ضروری ہے)ان میں سے کسی کے نام کر دیجیے۔ ہرات کی خدیجہ احراری کے نام کر دیجیے ،ساٹھ کی دہائی میں جو افغانستان کی پہلی خاتون پارلیمنٹیرین بنی تھیں ۔ ہر شعبہ زندگی میں بہت سے لوگ نمایاں خدمات کے حامل ہیں ، ایک وار لارڈ ہی کیوں؟ اس سے توبہتر ہے سڑک کو افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان سے منسوب کر دیجیے۔نہ وہ متنازعہ ہے نہ اس کے دامن پر بے گناہ شہریوں کا خون ہے۔