ہمارے سماج کا ایک خاص مزاج بن چکا ہے۔ جب بھی کوئی سیاسی یا سماجی ایشو ابھرتا ہے، اس پر وہ دو طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ ایک ردعمل الزامات، گالی گلوچ، کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس میں لوگ اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ دوسرا ردعمل لطیفہ بازی کی شکل میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سنگین سے سنگین معاملات کو لوگ لطیفوں میں ڈھال کر ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ ویسے کیسی ذہین قوم ہے کہ ایسے سنگین حالات و واقعات اور معاملات کو چلبلے لطیفوں میں ڈھال کر ایک دوسرے کو وٹس ایپ اور فارورڈ کرنے میں لگی رہتی ہے۔ کوئی بھی سماج کسی ایشو اور مسئلے پر جس انداز کا ردعمل دیتا ہے وہی ردعمل دراصل اس سماج کے سوچ کے بہائو اور اخلاقی پیرا میٹرز کو طے کرتا ہے۔ جیسا ردعمل ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ وہ دو انتہائیں ہیں۔ ایک جانب غصہ اور عدم برداشت کا اظہار ہے تو دوسری جانب ہنسی مذاق ٹھٹھے بازی۔ اور اللہ اللہ خیر صلا! ردعمل کا یہی مزاج ہمارے میڈیا کا بھی ہے۔ یعنی یہی دو انتہائیں ہیں۔ ان دو انتہائوں کے درمیان۔ سوچ، فکر، تدبر، مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اور گہری سوچ بچار جسے ہم Brain storming کہہ سکتے ہیں وہ مفقود ہوتی ہے۔ سماجی اور سیاسی مسائل اور ایشوز کے حل کے لیے سنجیدہ مکالمہ، نہ تو مین سٹریم میڈیا پر ہوتا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر۔ دونوں جگہوں پر لائکس اور ریٹنگ کے یرغمالی معاملات کو صرف جذباتی سطح پر دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اس صورت میں نکلتا ہے کہ مسائل دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اسی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے کبھی حل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں ہوتا۔ سو سنگین سے سنگین ایشو پر ایک جذباتی ابال کی صورت معاشرہ اور میڈیا اپنا ردعمل دیتا ہے۔ چند روز چینلز اور سوشل میڈیا پر خوب رونق لگی رہتی ہے، لوگوں کے ہاتھ کوئی ایشو آ جاتا ہے تو اس پر لطیفے، پوسٹیں اور سٹیٹس اپ ڈیٹ کر کے خوب وقت گزرتا، ٹی وی چینلوں کا پیٹ بھرنے کو بھی کچھ مصالحہ میسر آ جاتا ہے۔ چیئرمین نیب کی ویڈیو اور آڈیو لیکس کا معاملہ بھی اسی انداز میں ٹریٹ کیا جا رہا ہے جیسا کہ ہمیشہ سے یہاں ہوتا آیا ہے۔ تہتر کی عمر میں ایک نیب زدہ خاتون سے چیئرمین صاحب کی عاشقانہ جملوں نے پوری قوم کو خوب محظوظ کیا۔ میڈیا کو بھی پیٹ بھرنے کے مصالحہ میسر آیا۔ اس پر بھی لطیفہ گھڑنے والی فیکٹریوںکے خوب لطیفے بنائے جو یار دوستوں نے ایک دوسرے کو خوب فارورڈ کیے۔ ویڈیو میں موجود خاتون طیبہ فاروق بھی خوب ہٹ ہوئیں، لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کے اس کے ماضی، حال اور مستقبل کا احوال فیس بک پر شیئر کرنے لگے۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس معاملے کا جائزہ لیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے ردعمل نے کنفیوژن کی ایسی گرد اڑائی کہ ابھی تلک ایک عام بندہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کس نے چیئرمین نیب کے خلاف سازش کی۔ یا پھر آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا والا معاملہ ہے۔ حکومتی ایوانوں سے الزامات ن لیگ پر لگائے جا رہے ہیں۔ کل ہی عثمان ڈار ایک چینل پر بیٹھے بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ اس سازش کی کڑیاں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ملتی ہیں۔ جہاں نوز شریف بھی موجود ہیں اور ویڈیو میں موجود طیبہ کا شوہر فاروق بھی۔ ایسی دور کی کوڑی لانے پر پروگرام کا میزبان بھی اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ جبکہ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جس چینل سے یہ ویڈیو اور آڈیو بریک کی گئی اس کا مالک تحریک انصاف کا پرانا سپورٹر ہے اور وزیر اعظم کے مشیروں کے قافلہ میں بھی شامل رہا ہے۔ میں نے رہا کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ جونہی یہ ویڈیو اور آڈیو ان کے چینل سے بریک کی گئیں تو الزامات کی گرد اڑی اور اس میں وزیر اعظم ہائوس کے ترجمان نے مذکورہ چینل مالک کو نہ صرف بطور مشیر ڈس اون کیا بلکہ کہا کہ انہوں نے تو محض وزیر اعظم کے ساتھ ایک دو میٹنگز میں بطور میڈیا ایکسپرٹ شرکت کی ہے۔ اس سے زیادہ ان کا وزیر اعظم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال دونوں طرف سے الزامات کا سلسلہ جاری ہے دیکھئے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ چیئرمین نیب کے اس ویڈیو سکینڈل پر خود ان کا اپنا ردعمل یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ استعفیٰ دیتے اور عہدہ چھوڑ دیتے۔ اس کی وجہ بہت سادہ او رٹھوس ہے۔ چیئرمین نیب ایک اخلاقی کرپشن میں ملوث پائے گئے۔ احتساب کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے کردار کی ساکھ بری طرح کمپرومائز ہوتی ہے۔ کیا اب وہ اس قابل ہیں کہ دوسرے کی مالی کرپشن پر ان سے سوال جواب کریں۔ اس آڈیو اور ویڈیو لیکس میں چیئرمین نیب کی کسی مالی کرپشن کا ثبوت نہیں ملتا۔ صرف اخلاقی کرپشن سے پردہ اٹھتا ہے۔ سچی بات ہے کہ جب یہ خبر بریک ہوئی تو مجھے ذاتی طور پر حیرت کا کوئی جھٹکا نہیں لگا کیونکہ ایسی اخلاقی کرپشن اس معاشرے میں کوئی نئی اور انہونی بات نہیں۔ عورتوں کا استحصال بھی نئی بات نہیں اور عورتوں کا اپنے عورت ہونے کو، اپنے مفاد اور کام نکلوانے کیلئے استعمال کرنا بھی بدقسمتی سے کوئی نئی چیز نہیں۔ حیرت صرف اس بات پر ہوئی کہ کمال ہے چیئرمین نیب جیسا گھاگ اور جہاں دیدہ اپنے عہدے کی حساسیت کا اندازہ لگائے بغیر کیسے، ایک ایسی خاتون کے چنگل میں آ گئے جس کے نیب میں کیسز موجود ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے ورنہ کوئی خوش فہم ہی ہو گا جو ایک معاشرے میں جہاں بیشتر اہل اختیار ایسی اخلاقی کرپشن میں مبتلا ہوں یہ سوچے کہ نیب کا چیئرمین ایک فرشتہ ہے! اور یہ ایسے معاشرے کی کہانی ہے جہاں مالی کرپشن کو اخلاقی کرپشن سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسی اخلاقی کرپشن کو لوگ فرد کا ذاتی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دراصل یہی ہمارا المیہ ہے۔ معاشرے میں اخلاقیات روز بروز روبہ زوال ہے۔ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا کہ ہر دین کی ایک خصلت ہے اسلام کی خصلت حیا ہے۔ صرف یہی ایک صفت کردار سے نکل جائے تو کوئی اخلاقی برائی، برائی نہیں لگتی صرف دل لگی لگتی ہے جو ہمارے چیئرمین نیب انتہائی عاشقانہ موڈ میں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جو لوگ ایسی ’’دل لگی‘‘ کو فرد کا ذاتی معاملہ کہتے ہیں ان کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ ایک شخص جو اہم ترین عہدے پر متمکن ہو اور دوسروں کا محاسبہ کرنے کا اختیار رکھتا ہو اس کی ایسی اخلاقی گراوٹ قطعاً اس کا ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ قدرت پردہ ڈالتی ہے مگر جب قدرت ہی پردہ اٹھا لے تو پھر ایسا شخص محتسب رہنے کا اہل نہیں ۔ اس معاشرے میں جہاں کردار کی دیانت نایاب ہو اور ہر طرح کی اخلاقی برائیاں عام ہوں۔ وہاں سمت اسی وقت ہی درست ہو گی جب سماج میں اخلاقی کرپشن کو مالی کرپشن سے بڑا جرم سمجھا جائے گا کیونکہ مالی کرپشن بھی اخلاقی کرپشن ہی کا ایک عکس ہے۔ سجاد میر صاحب نے اگلے روز اپنے کالم میں بالکل درست فرمایا کہ معاشرے میں اس حوالے سے اپنی ترجیحات کو درست کرنے کی ضرورت ہے’’بدکرداری ،بدکرداری ہے یہ کسی بھی مالی بداعمالی سے بڑا جرم ہے‘‘