مجھے وہ پہلی ہی نظر میں بھا گیا تھا، بہت خوبصورت، بہت معصوم، زیادہ بھاؤ تاؤ کئے بغیر ہی اس بکرے کو قربانی کے لئے خرید لیا۔ مجھے بکرے کی تلاش میں منڈی جانے کا تردد نہیں کرنا پڑا تھا۔ بیوپاری ہمارے گھر کے قریب ہی مل گیا تھا، میں نے رقم کی ادائیگی کے بعد بکرے کی رسی اپنے ہاتھ میں پکڑی اور پیدل ہی گھر کی جانب چل پڑا۔ زیادہ سے زیادہ ایک فرلانگ کا فاصلہ بکرے نے بڑے سکون سے دوست کی طرح طے کیا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر اسے اندر داخل کرنے کی بھی کوشش نہ کرنا پڑی۔ شاید اس بکرے کے علم میں تھا کہ قربانی سے پہلے آخری تین دن اس نے اسی گھر میں گزارنے ہیں۔ وہ خود ہی کار پورچ کے دروازے کو بھی عبور کر گیا۔ ساتھ ہی سیڑھیاں تھیں، بکرے نے میری جانب آنکھیں گھمائیں، میں نے اسے سیڑھیاں چڑھنے کا اشارہ کیا تو اس نے خود ہی اپنے قدم سیڑھیوں پر رکھ دیے۔ وہ ایسے اوپر چڑھ رہا تھا جیسے کوئی ایسا مہمان ہو جسے گھر کے راستوں کا علم ہے۔ سب سے اہم اور قابل غور بات یہ تھی کہ وہ بکرا سارے راستے بھی خاموش رہا تھا اور اب تک اس نے کوئی آواز نہیں نکالی تھی۔ گھر کی پہلی منزل پر پہنچنے کے بعد اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اسے دوسری منزل کی سیڑھیاں بھی نظر آ گئیں، مجھے اسے ہانکنا پڑا نہ گائیڈ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس نے دوسری منزل کی سیڑھیاں بھی خود ہی عبور کرنا شروع کردیں، وہ ڈرائنگ روم میں پہنچ کر کھڑا ہو گیا۔ گھر میں صرف میری بیوی موجود تھی، بچے عید کی شاپنگ کے لئے میری بہو کے ساتھ مارکیٹ گئے ہوئے تھے، میری بیوی نے بکرے کو خوش آمدید کہا تو اس نے جواب میں گردن ہلا دی، میں اسے ٹیرس کی طرف لے گیا اور گلی کے رخ کی جانب ’’گرل‘‘ کے ساتھ باندھ دیا۔ بکرے نے اب تک ایک بار بھی’’باں، باں‘‘ نہیں کی تھی، مجھے اس کی مسلسل خاموشی حیرت کی جانب دھکیلنے لگی، سوچا ، شاید ریوڑ سے بچھڑ کر آیا ہے، تنہائی اور اداسی محسوس کر رہا ہوگا۔ اس کے بعد میں بکرے کے کھانے کا بندوبست کرنے باہر چلا گیا۔ دکاندار سے مشورہ کرکے چارہ خریدا، چار اقسام کا دانہ لیا، دکاندار نے بتایا کہ چاروں کو مکس کرکے ’’ڈش‘‘ اس کے سامنے رکھنی ہے۔ گھر واپس لوٹا تو بیگم نے بتایا کہ آپ کا بکرا تو اب تک ایک بار بھی نہیں بولا، میں نے سب سے پہلے چارہ اس کے سامنے ڈالا، اس نے چارے کو سونگھا تک نہیں، میں نے اسے ہاتھ سے کھلانے کی کوشش کی، مگر اس نے بچوں کی طرح منہ پھیر لیا۔ آدھ گھنٹے تک انتظار کیا کہ وہ کب کھانا شروع کرتا ہے مگر مایوس رہا، بیگم نے مشورہ دیا کہ آپ اپنا دھیان ہٹا لیں، وہ خود ہی کھا لے گا۔ میں تھوڑا سا اور انتظار کرکے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کتاب پڑھنی شروع کی مگر خیال مسلسل بکرے کی جانب ہی رہا، ایک ڈیڑھ گھنٹہ بمشکل کمرے میں گزارنے کے بعد میں پھر اپنے خاموش، اداس اور شاید ناراض بکرے کے پاس پہنچ گیا۔ سب کچھ ویسا ہی پڑا تھا، اس نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا۔ میں نے ایک اور بات بھی نوٹ کی، جو بہت ہی پراسرار تھی، میں نے محسوس کیا کہ بکرے نے ٹیرس میں پہنچ کر جس جگہ قدم رکھے تھے، اس کے قدم ابھی تک اسی جگہ جمے ہوئے ہیں۔ اس نے اب تک اپنا کوئی قدم اٹھانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی تھی، وہ پتھر پر پتھر بنا کھڑا تھا۔ میری اہلیہ بھی اس ساری صورتحال پر پریشان تھی اور بکرے کے رویے کی مختلف توجیہات بھی پیش کر رہی تھی، مگر مطمئن وہ بھی نہ تھی۔ میں نے سوال کیا، کہیں یہ بکرا بیمار تو نہیں ہے؟ بیگم نے حکیمانہ جواب دیا، اس کی ’’مینگنیں‘‘ بہت نارمل ہیں، جب جانور بیمار ہوتے ہیں تو ان کے ہاضمے سے اس کا پتہ چل جاتا ہے، بکرا ماشاء اللہ مکمل تندرست ہے،، بیگم صاحبہ نے بکرے کو کھانا کھلانے کے لئے ایک اور تجربہ کیا جو غیر متوقع طور پر کامیاب رہا۔ باورچی خانہ میں دوپہر کی بچی ہوئی دو روٹیاں پڑی ہوئی تھیں، جنہیں وہ اٹھا لائی، بیگم نے دونوں روٹیاں اسے اپنے ہاتھ سے کھلائیں اور وہ پیار سے کھا گیا۔۔۔ بہو اور بچے شاپنگ مکمل کرکے گھر واپس آ چکے تھے، بچوں کو گھر میں ’’نئے مہمان‘‘ کی آمد کا پتہ چلا تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میرے پاس آ گئے۔ بچے بکرے سے پیار کرنا چاہ رہے تھے، اس کے ساتھ کھیلنا چاہتے تھے، مگر بکرے سے ڈر بھی رہے تھے، بچوں کا ڈر میں نے دور کر دیا۔ اب وہ اس کے جسم پر ہاتھ پھیر رہے تھے، اس کا منہ چوم رہے تھے اور بکرا بالکل پہلے کی طرح ساکت کھڑا تھا۔ وہ کوئی ردعمل نہیں دے رہا تھا، مجھے لگا جیسے وہ کوئی جاندار نہیں محض ایک کھلونا ہے جس سے بچے جی بہلا رہے ہیں۔ بچے بھی اپنی محبت کا جواب محبت سے چاہتے تھے، مگر اداس بکرا ان سے کھیلنے اور ان سے لڑنے پر آمادہ ہی نہیں ہو رہا تھا، بچوں نے ایک اور گر آزمانے کی کوشش کی، وہ فریج میں پڑا ہوا پھل باری باری بکرے کے لئے نکال کر لانے لگے، اسے کیلے کھلانے کی کوشش کی، اسے سیب کھلانے کے جتن کئے گئے، اس کے لئے فریج سے آم نکالے گئے، مگر بکرے نے بچوں کی ساری پیش کشیں مسترد کر دیں۔ پھر بچے تھک ہار کر سونے کیلئے چلے گئے، رات گزر رہی تھی، بکرا ایک ہی جگہ جما ہوا کھڑا چھوڑ کر میں بھی وہاں سے اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن میں دیر سے جاگا، مگر بیدار ہوتے ہی سب سے پہلے بکرے سے ملاقات کے لئے اس کے پاس پہنچا، بکرا زمین پر لیٹا گہری نیند سو رہا تھا، بیگم نے بتایا کہ بکرا صبح گیارہ بجے تک اپنا رات والی پوزیشن پر ہی کھڑا رہا، اس نے رات والی دو روٹیوں کے سوا کچھ اور کھایا بھی نہیں۔ بیگم نے اسے دوبارہ روٹی کھلانے کی کوشش بھی کی تھی مگر اس نے روٹیوں کو بھی سونگھا تک نہیں۔ اس کے لئے نیا چارہ اور دانہ بھی منگوایا گیا تھا، جو وہیں اس کے قریب پڑا تھا۔ میں خوفزدہ ہوا کہ بکرا کیا سویا ہوا ہی ہے؟ تصدیق کے لئے میں نے اس کا جسم ہلایا، اس نے ایک بار آنکھ کھول کر میری جانب دیکھا اور پھر سو گیا، لگ رہا تھا کہ وہ گہری نیند میں ہے، دوسرا دن اور دوسری رات اسی طرح گزر گئے۔ بچے بھی بکرے کی بے رخی سے نالاں نظر آئے۔۔۔۔ تیسرے دن بکرا کچھ الرٹ نظر آیا، دکھائی دے رہا تھا کہ وہ تندرست اور صحت مند ہے، مگر اس کی سنجیدگی برقرار تھی، تیسرے روز بھی وہ کچھ نہیں کھا رہا تھا۔ تین دن میں اس نے ایک بار پانی تک نہیں پیا تھا، میرا بیٹا تازہ چارہ لے کر آیا تو بکرا پھر سو رہا تھا، سوتے میں اس نے ایک مٹھی کے قریب گھاس کھائی اس کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ ہم لوگ ہر سال نماز عید کی ادائیگی سے واپس آتے ہی جانور ذبح کرا لیتے ہیں لیکن اس بار میں نے جان بوجھ کر قصاب کو دوپہر دو بجے کے بعد کا وقت دیا، یہ فیصلہ میں نے اس نیت سے کیا کہ اپنے پیارے بکرے کو ذبح ہونے سے پہلے کچھ کھاتے پیتے دیکھ سکوں۔ مسجد سے واپسی پر میں نیا چارہ گھر لے گیا تھا، مگر افسوس کہ بکرے نے چوتھے دن بھی کچھ نہ کھایا، اسے ذبح کرنے کے لئے دوسری منزل سے گراؤنڈ فلور پر لایا گیا تو وہ دونوں منزلوں کی سیڑھیاں گھر کے کسی فرد کی طرح ہی اترا۔ قصاب کے ہاتھ میں چھری تھی، اس کی کھال اتارنے کے لئے گیٹ پر رسی باندھی جا چکی تھی، وہ اس سارے منظر کو دیکھ کر بھی خاموش رہا، اسے ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹایا گیا تو بھی اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی، پھر تکبیر پڑھی گئی اور وہ اللہ کی رضامندی میں چلا گیا، قصاب نے بتایا کہ گوشت نہ صرف وزن میں بہت زیادہ نکلا ہے بلکہ اتنا اچھا گوشت کم بکروں کا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔