بس بیٹھے بیٹھے درمیان سے اٹھ کر چل دیا۔ میں نے کسی سے اس کی تعزیت بھی نہیں کی۔ ایک چپ سی لگ گئی ہے ویسے میں اس کی تعزیت کیوں کروں اور کس سے کروں دوسروں کو تو اس کی تعزیت مجھ سے کرنا چاہیے تھی۔ بعض لوگوں سے ایسے ہی تعلقات ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب صلاح الدین صاحب شہید ہوئے۔ جونہی خبر ملی ان کے گھر پہنچے تو پروفیسر غفور احمد صاحب موجود تھے وہ سب کو چھوڑ چھاڑ کر سیدھا میری طرف آئے اور مجھے گلے سے لگا کر دلاسا دینے لگے۔ جیسے کہہ رہے ہوں ان کی تعزیت تم سے نہیں کروں گا تو کس سے کروں گا۔ یہ ایک کنبہ تھا جو بکھرتا جا رہا ہے بلا شبہ ادریس بختیار اس کنبے کا بڑی محبت کرنے والا فرد تھا یہ وہ لوگ ہیں جن کی دوستیاں یاریاں کسی نظریے یا عقیدے کے لئے ہوتی ہیں۔ اور ایسی ہوتی ہیں کہ خون کے رشتے بھول جاتے ہیں۔ میں تین دن سے اس پر کالم لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر لکھ نہیں پا رہا۔ ادریس سے ستر کی دہائی سے تعلق قائم ہوا اور نظریاتی ہم آہنگی سے بلند تر ہو کر ذاتی اور شخصی سطح تک جا پہنچا۔ مرے لاہور آنے کے بعد رابطہ زیادہ تر فون پر تھا کسی پر مشکل آئی۔ کسی کو ضرورت پڑتی‘ ادریس کے ذہن میں کوئی خیال آتا وہ ضرور بات کرتا۔ ستر کی دہائی اس ملک میں بڑی معرکہ خیز حیثیت رکھتی ہے۔ میں بھی انہی دنوں کراچی منتقل ہوا تھا۔ یوں لگا اپنے گھر ہی میں آیا ہوں‘ کہیں اور نہیں آیا۔ بنا بنایا خاندان گویا پہلے سے موجود تھا۔ خاندان کا مطلب خونی رشتہ دار نہیں‘ وہ تو کراچی میں کوئی نہ تھا۔بس یہی لوگ محمود مدنی‘ صلاح الدین ‘ عبدالکریم عابد‘اور ان کے پہلو بہ پہلو عارف الحق عارف‘ ظہور نیازی‘ ہمایوں عزیز کتنے یہ لوگ تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے نئے لوگ شامل ہوتے گئے۔ ادریس بختیار ان میں نمایاں ترین تھا مجھے فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی سیکرٹری شپ کا الیکشن لڑانے میں وہ پیش پیش تھا۔ میں انکار نہ کر سکا۔ پھر میں وہ سارا ورثہ جن لوگوں کو سونپ کر آیا‘ ان کا مرکزی کردار ادریس ہی تھا۔وہ کبھی کسی کو آگے کرتے کبھی کس کو۔ آخر میں اسی کے سر پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی وہ اس وقت پی ایف یو کے صدر تھے۔ میں نے اسے کام کرتے بھی دیکھا ہے۔ یہی نہیں کہ وہ ایک خاموش قسم کا ٹریڈ یونینسٹ تھا۔ وہ ایک پیشہ ور صحافی بھی تھا۔ ویسے کیسی ٹریڈ یونین‘ وہ تو ایک مشنری تھا۔ خاموشی سے پیشہ ورانہ طور ہم نے ایک چھت کے نیچے کام بھی کیا ہے۔ میں حریت کا ایڈیٹر رہا ہوں‘ وہ اسی ہارون ہائوس میں پہلے شام کے انگریزی اخبار اسٹار‘ پھر ماہنامہ ہیرالڈ سے وابستہ رہا ہے۔ یہاں ابتدا میں اس کے رفیق کار ظفر عباس اور عمران اسلم تھے۔ نظریاتی فرق بہت زیادہ تھا مگر ذاتی تعلقات ایسے تھے کہ لگتا ہی نہ تھا کہ کوئی دوری ہے۔ ان دو اداروںمیں وہ شیری رحمن کا بھی رفیق کار رہا۔ وہ سب کا پسندیدہ صحافی تھا۔ ملنے جلنے میں بہت خوشگوار شخصیت۔ حمید ہارون بھی اسے بہت پسند کرتے تھے۔ کافی عرصے سے حمید سے ملاقات نہیں ہوپاتی تھی۔ تو میں ادریس سے پوچھتا کہ کس حال میں ہیں پکا نظریاتی اور مشنری ہونے کے باوجود‘ وہ ایک کشادہ دل کا مالک تھا۔ یہ کشادہ دلی ایسی تھی جو اس کی شخصیت کا حصہ تھی۔ اس لئے نہیں تھی کہ دوسروں کا اپنا ہم خیال بنایا جائے۔ نہیں بالکل بے لوث۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے وہ بی بی سی اور انڈیا کے ڈیلی ٹیلی گراف سے وابستہ رہا۔ ایک وقت آیا جب لاہور سے ایک اخبار نکلا اور وہ اس سے وابستہ ہو گیا۔ میں نے جس کام کے حوالے سے اس کا نام پیش کیا تھا‘ اس سے ہٹ کر بلکہ اس سے کہیں بلند اسے ایک ذمہ داری سونپ دی گئی۔ جہاں اس بات کی خوشی تھی کہ وہ اب لاہور آتا جاتا رہے گا۔ دوبارہ مجھے کئی خدشات تھے۔ میں نے ادریس سے ان خدشات کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ بالآخر جب اس نے اس ذمہ داری سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے مجھ سے مشورہ کیا اور متبادل تجاویز بھی پیش کیں۔ افسوس‘ ان پر عمل درآمد نہ ہوااور ادریس کو یہ ذمہ داری چھوڑنا پڑی۔ اس نے ایک بڑے چینل کے ٹی وی پروگرام کی اینکرنگ بھی کی تھی۔ ادریس تو مگر سبک خو آدمی تھا اور یہاں آج کل تلخ نوائی چل رہی ہے۔وہ جب کسی سٹوری پر کام کرتا تو اس کی ایک ایک باریکی پر اتنی توجہ دیتا کہ ہر بین الاقوامی معیار کے پیمانے پر پورا اترتا۔ وہ سعودی عرب بھی گیا‘ جسارت کے ڈیسک پر بھی کام کیا‘ ہر جگہ پیشہ ورانہ طور پر اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ بات بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے پیشہ وارانہ مہارت بھی۔ نظریاتی پختگی بھی اور رواداری اور مروت کی عادت بھی۔ مجھے یقین ہے سینکڑوں نوجوان ہوں گے جنہوں نے اس سے فیض پایا ہو گا۔ وہ ہر لحاظ سے دوستانہ رویہ رکھتا تھا۔ میں جب لاہور میں تھا تو صحافتی سیاست سے خود کو دور رکھتا‘ مگر کراچی میں ایسی فضا اور ایسے لوگ ملے کہ میں بھی اس جدوجہد کو ضروری سمجھنے لگا۔ ملک کے حالات ہی ایسے تھے ‘ ہم اپنی تاریخ کا سب سے جاندار نظریاتی معرکہ سر کرنے میں نکلے ہوئے تھے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ 35ء کی نسل کے بعد 70ء کی نسل کو تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا تھا۔ وہ کسی نے حلقہ ارباب ذوق میں کہا تھا کہ فرات کی لہر بہہ رہی ہے۔ حق و باطل کے درمیان لکیر کھینچ چکی ہے۔ آپ کو طے کرنا ہے کہ آپ لشکر حسین کے ساتھ ہیں یا یزیدیوں کے ٹولے کا حصہ ہیں۔ اس وقت غیر جانبداری کا مطلب منافقت تھا۔ تاریخ میں ایسا وقت آتا ہے جب قوم کے ہر فرد کو اپنے قبیلے کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میںجو جذبہ صادق کے ساتھ اپنے مورچوں پر ڈٹے رہتے ہیں وہی سرخرو ہوتے ہیں۔ ادریس کے پائے استقلال میں اس حوالے سے کبھی لرزش نہیں دیکھی۔ وہ اس قبیلے کا قافلہ سالار تھا۔ ہمیشہ آگے رہنا‘ بلکہ شاید یوں کہوں کہ خود کو پیچھے رکھ کراگلے مورچوں میں موجود رہتا۔ بے لوث کارکن‘ نہیں بے لوث قائد‘ ادریس اورمیں چند دن اکٹھے بھی رہے ہیں۔ طارق روڈ والے گھر میں جب میںچند دوستوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اسے اچانک کراچی آنا پڑا۔ چند دن وہ ہمارے ساتھ رہا۔ بڑے صبرو استقامت اور ہمت سے وہ ایک طرح سے دوبارہ پائوں جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ غالباً جدہ سے واپس آیا تھا۔ ایسا ہی کچھ تھا۔ یہ اس گھر کی بیٹھکوں کا بھی شریک تھا جہاں شہر بھر کے ادیب‘ نوجوان اور پختہ کار سبھی تو آیا کرتے تھے۔ جہاں (ڈاکٹر) ممتاز احمد بھی کچھ عرصے کے لئے ٹھہرے تھے۔ اس گھر کی ایک الگ تاریخ ہے۔ اسے کون لکھے گا۔ جب بھی کراچی سے کوئی ایسی خبر آتی ہے ‘ دل بیٹھ جاتا ہے۔میرا کنبہ لٹتا جا رہا ہے۔ برادرم نصیر سلیمی نے دو دن پہلے علالت کی اطلاع دی۔ پھر اتنا بتایا کہ انتقال ہو گیا ہے اور میں جا رہا ہوں میں تو کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ بس سوچ میں پڑ گیا کہ اب اس کاررواں کی باگیں کون سنبھالے گا۔ موبائل کھولا تو فیس بک پر عارف الحق کی لکھی تفصیل دیکھی۔ عارف آج کی ماضی کی یادداشتیں لکھ رہے ہیں۔ اچانک انہیں ضیا زبیری سے ادریس کے چلے جانے کا علم ہوا۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آخری دنوں کی کہانی لکھنے لگا جب اسے اس کے ادارے نے فارغ کر دیا تھا۔ وہ بہت دل گرفتہ تھا صحافت پر ایسا وقت نہیں آیا کہ برسوں کے جمے جمائے لوگ اکھڑ گئے ہوں۔ ادریس ان لوگوں میں تھا جیسے کراچی کے دو بڑے اشاعتی اداروں میں پذیرائی ملی ہو۔ اس نے اردو میں کالم لکھنا شروع کیا وہ ایک نامور ادارے کے ادارتی بورڈ کا سربراہ بھی تھا۔ مری پیشہ وارانہ مروت کا تقاضا ہے کہ یہاں کچھ نہ بولوں۔ مگر ان دنوں اہل صحافت سے اچھا نہیں ہو رہا۔ جہاں مہنگائی ہے بے روزگاری ہے۔ مارکیٹیں ویران ہیں‘ وہاں صحافت پر بھی برے دن آئے ہوئے ہیں۔ اس حکومت کو کوسوںبرے دنوں کا رونا روئوں یا اس نظام زر کا سیاپا کروں جس نے صحافت کو بھی نہیں چھوڑا۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہو گا۔ عارف الحق بھی یہ کہانی کیوں نہ لکھتے وہ بھی تو شاید ایسی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ ادریس بختیار چلا گیا‘ مگر اپنے ساتھ ایک عہد لے گیا۔