ڈاکٹر واڈیا کی کلینک میں داخل ہوتے ہی مجھے یاد آیا کہ پچھلی بار جب میں نے ان سے رابطہ کیا تھا تو وہ کسی بات پر مجھ سے بدظن ہو چکے تھے۔ گزشتہ روز ایک بار پھر وہی مرض عود کر آیا اور مجھے ہر چیز ادھوری اور نامکمل نظر آنے لگی۔ اس احساس کے ساتھ ہی میں نے آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارے، آنکھوں کو خوب ملنے کی کوشش کی لیکن نگاہوں کا ادھورا پن ختم نہ ہو سکا۔ آخر کار میں نے جبراً قہراً خود کو ڈاکٹر واڈیا کے پاس جانے کے لیے تیار کر ہی لیا۔ ڈاکٹر واڈیا کی عمر ستر سال سے متجاوز ہوگی۔ اس عمر تک پہنچنے کے بعد آدمی کا حافظہ از خود کمزور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مجھے یقین تھا کہ ڈاکٹر واڈیا مجھے بھلا چکے ہوں گے۔ چنانچہ وہی ہوا، اپنی باری آنے پر جب ڈاکٹر واڈیا کے کمرے میں داخل ہوا تو ان کے چہرے پر اجنبیت کے آثار تھے۔ فرمائیے، آپ کو کیا تکلیف ہے؟ ڈاکٹر واڈیا نے نہایت شائستگی سے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب! عجیب سی تکلیف ہے۔ ہر چیز ادھوری اور نامکمل نظر آنے لگی ہے۔ میں نے سادگی سے کہا۔ ادھوری اور نامکمل سے آپ کی کیا مراد ہے؟ انہوں نے پوچھا۔ مثلاً ڈاکٹر صاحب! آپ کو میں دیکھ رہا ہوں تو مجھے آپ کا آدھا دھڑ تو صاف دکھائی دے رہا ہے لیکن باقی آدھا دھڑ غائب ہے، اسی طرح سب لوگ مجھے ادھورے لگنے لگے ہیں۔ یہ شکایت آپ کو کتنے عرصے سے ہے؟ ڈاکٹر واڈیا نے میری تشخیص کارڈ پر میرے مرض کا حال لکھنے کے لیے قلم اٹھا لیا۔ یہی کوئی چھ مہینے سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم سب ادھورے ہیں، ہم سب نامکمل ہیں۔ اگر یہ میری کوئی نفسیاتی کیفیت ہوتی اور مجھے یہ محسوس ہوتا کہ یہ سب کچھ میرے ظن و گمان کا نتیجہ ہے تو شاید میں اسے جھیل جاتا لیکن ڈاکٹر صاحب! یہ ادھورا پن فی الواقع مجھے نظر آنے لگا۔ میری آنکھیں ادھورے لوگوں کو دیکھتے دیکھتے تھک چکی ہیں۔ اب آپ مجھے کوئی ایسی دوا دیں کہ مری آنکھیں درست ہو جائیں اور میں ٹھیک طریقے سے دیکھنے لگوں۔ آپ عجلت نہ کیجئے۔ ڈاکٹر واڈیا نے کہا، کوئی بھی مرض اچانک نہیں ہوتا اور ہر مرض اپنے علاج کے لیے وقت طلب کرتا ہے۔ آپ کو مجھے وقت دینا ہوگا۔ ویسے بھی یہ بیماری تشویشناک ہے اور عجلت کے نتیجے میں یہ مرض قابو سے باہر بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار ہیں تو پھر میں آپ سے چند سوال کرنا چاہوں گا۔ میں آپ کے ہر سوال کا جواب دوں گا، میں نے کہا۔ لیکن تندرستی کی شرط پر۔ آپ کو یہ امید دلانا ہوگی کہ میں کتنے دنوں میں صحت یاب ہو جائوں گا۔ دیکھیے صاحب! آپ اس وقت کسی شاپنگ مال پر نہیں کھڑے ہیں اور نہ آپ جوتے اور چپل خریدنے آئے ہیں کہ مجھ سے ضمانت طلب کریں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شفا میرے ہاتھ میں نہیں ہے جو مریض بھی شفا یاب ہوتا ہے، اسے صحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ ہم ڈاکٹر لوگ تو محض بہانہ ہیں۔ شفا اللہ تعالیٰ دیتے ہیں اور داد ہمیں ملتی ہے۔ اس لیے میں آپ کو ضمانت تو نہیں دے سکتا البتہ یہ یقین ضرور دلا سکتا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو آپ کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر صاحب! بات یہ ہے۔ میں نے دوبارہ عرض کیا۔ اس مالک حقیقی نے ہمیں جو کچھ بھی عطا کیا ہے، اس میں آنکھوں سے زیادہ قیمتی اور حیرت انگیز چیز شاید کوئی اور نہیں ہے لہٰذا میں اپنی آنکھوں کو صرف آپ کی تشخیص اور علاج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔ ویسے بھی آئے دن ایسی خبریں ملتی ہیں کہ ڈاکٹر کی غفلت سے مریض اندھا ہو گیا۔ میں نے مانا کہ آپ اپنے پیشے میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں لیکن غلطی کا امکان تو پھر بھی ہے تو اگر وہ غلطی میری آنکھوں کے سلسلے میں واقع ہو جائے تو میں جیتے ہی مر جائوں گا کیونکہ آنکھیں ہیں تو سب کچھ ہے۔ دیکھئے مسٹر! اب کے ڈاکٹر واڈیا کے لہجے میں سختی تھی۔ آپ کو مجھ سے علاج کرانا ہے تو آپ اپنے آپ کو میرے حوالے کردیجئے اور مجھ پر اعتماد کیجئے کہ کیونکہ ڈاکٹر اور مریض کے درمیان اعتماد کا رشتہ نہ ہو تو علاج ممکن ہی نہیں۔ اگر میں ہر مریض سے اس طرح پیش آنے لگوں تو پھر مجھے کلینک بند کرنا پڑ جائے گا۔ آپ جلد بتائیے کہ آپ کو آنکھیں بند کرکے اندھا اعتماد کرتے ہوئے مجھ سے علاج کرانا ہے یا نہیں؟ جلد بتائیے کیونکہ باہر انتظار گاہ میں بہت سے مریض بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر واڈیا! آپ کو اپنے علاج پر اتنا بھی بھروسہ نہیں کہ آپ اس کی ضمانت دے سکیں۔ اگر آپ ہی کو اپنی تشخیص اور علاج پر بھروسہ نہیں ہے تو مجھے کیسے بھروسہ ہو جائے۔ میں کیسے سمجھ لوں کہ میری یہ بیماری ختم ہو جائے گی۔ میں نے کہا نا کہ آپ میرا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ کے کسی سوال کا میں صحیح جواب نہیں دے سکتا۔ آنکھیں بہت نازک چیز ہیں اور پھر آنکھوں کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس کی حقیقت کو آج تک ہم لوگ نہیں سمجھ سکے۔ ہم جو کچھ بھی علاج کرتے ہیں باہر سے کرتے ہیں، آنکھوں کے اندر کی دنیا کو دیکھنا اور سمجھنا بہت مشکل مرحلہ ہے اور پھر اسے سمجھانا اور بتلانا تو واقعی ناممکن سا کام ہے۔ اب آپ بتائیے کیا آپ علاج کے لیے تیار ہیں۔ ڈاکٹر واڈیا کی اس تقریر کے جواب میں میرے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ تھا لیکن اب انہیں مزید برہم کردینا مناسب نہیں تھا۔ خصوصاً اس لیے کہ جب میں نے ان پر نظر ڈالی تو وہ واقعی مجھے ادھورے لگے، اس لیے میں معذرت کر کے وہاں سے نکل آیا لیکن میرا مرض اپنی جگہ پر بدستور موجود تھا۔ جب میں سڑک پر نکلا تو کسی سیاسی جماعت کے کارندے بسوں اور ٹرکوں پر جلوس کی شکل میں گزر رہے تھے۔ جب میں نے ان پر نگاہ ڈالی تو وہ سب مجھے ادھورے محسوس ہوئے۔ نامکمل لوگ، نامعلوم منزلوں کی تلاش میں تھے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ سب کچھ میری آنکھوں کے بیمار ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔ میری آنکھوں میں کوئی بیماری نہیں ہے۔ اصل بیماری یہ ہے کہ میرے نقطہ نظر میں ادھورا پن ہے۔ جب میں لوگوں کو اسی طرح دیکھنے اور قبول کرنے لگوں گا جیسے کہ وہ ہیں تو پھر میری شکایت بھی ختم ہو جائے گی۔ گویا ڈاکٹر واڈیا میرے معالج نہیں تھے بل کہ اپنا معالج مجھے خود بننا پڑے گا اور جبھی میں ٹھیک ہو سکوں گا۔ پیارے قارئین! آپ سمجھ گئے نا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔