پیاری کرن اشتیاق! میری شدید خواہش ہے کالم تم ضرور پڑھو کیونکہ یہ ایک لکھاری کی طرف سے تمہارے لیے چند لفظوں کی صورت ایک چھوٹا سا خراج ہے! میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں نے جب سے تمہاری کہانی ’’اطراف‘‘ میں پڑھی، میں اپنی نظروں میں آپ ہی گر چکی ہوں۔ میں کیسی ناشکری، شکوے شکایت کرنے والی، ہربات پر ایک ہنگامہ کھڑا کر کے اس کا ایشو بنا لینے والی ہوں اور تم کیسی شکر گزار ہو کہ تخلیق کرنے والے نے تو تمہیں مکمل تخلیق بھی نہیں کیا اور تم اس ادھوری تخلیق کے ساتھ ہمہ وقت اس کی دی ہوئی زندگی کو نعمت سمجھ کر گزار رہی ہو۔ کرن اشتیاق! تمہارے مقابل میں کھڑی ہوئی کیسی ناشکری دکھائی دیتی ہوں۔ میں وسائل کی کمی کا رونا رونے والی۔ رکاوٹوں اور مسائل پر ماتم کرنے والی۔ ایک تم ہو کہ ادھورے وجود کے ساتھ زندگی کا مشکل سفر ایسے جیئے جا رہی ہو کہ مشکلات بھی تمہارے عزم کے سامنے ڈھیر ہو جائیں۔ ایک بات بتائوں کرن اشتیاق، تمہاری کہانی پڑھتے ہوئے میں بے ساختہ روتی رہی۔ کہانی کے اس موڑ پر جب اس دنیا میں آئی تو تمہارے پیاروں کے لیے یہ خبر کتنی قیامت خیز تھی کہ حسین چہرے والی یہ گڑیا،کہنیوں تک بازوئوں سے محروم ہے تو نچلا دھڑ بھی ٹانگوں سے عاری، بس ایک سانس لیتا لوتھڑا سا ہے۔ اتنا ادھورا وجود دیکھ کر ڈاکٹرز، نرسیں سب پریشان تھے۔ پھر ڈاکٹروں نے متفقہ طور پر کہا کہ اس ننھے سے ادھورے لوتھڑے جیسے وجود کو ابھی ختم کر دینا چاہیے تا کہ آنے والے دور میں زندگی کی اذیت ناکی سے بچ سکے۔ کیسا عجیب منظر ہو گا نا کرن، کہ تم ایک نومولود ادھورے وجود والی بچی کی صورت میں ہسپتال کے بیڈ پر پڑی ہو گی اور آس پاس کھڑے ہوئے ناامید مسیحا تم سے تمہاری زندگی چھین لینے کے مشکل فیصلے پر سوچ و بچار کر رہے ہوں گے۔ شاید تمہارے والد بھی اس پر مان گئے ہوں کہ بیٹی ذات…کیسے جیئے گی۔ معذوری کے اس بوجھ کے ساتھ، ایک غیر معمولی ادھورا جسم، کتنی بڑی لیکن تکلیف اور اذیت کا باعث ہو گا لیکن پھر تمہاری ماں کی مامتا تڑپ کر تمہارے اور موت کے فیصلے کے درمیان آ گئی۔ اس نے نوماہ تمہیں اپنے جسم میں پالا پوسا تھا، پھر درد کے ایک سمندر سے گزر کر تمہیں جنم دیا تھا۔ تمہیں زندہ رکھنے کا مشکل فیصلہ تمہاری ماں نے کیا اور پھر تمام عمر اس فیصلے کی لاج رکھی۔ مغرب میں ایسے بچوں کو جو صحت کے نامساعد حالات میں بھی جیئے جائیں انہیں miracle child، معجزاتی بچے کہا جاتا ہے۔ تم بھی ایک مریکل چائلڈ ہو۔ بغیر بازوئوں، بغیر ٹانگوں کے صرف ایک دھڑ کے ساتھ، جس پر معصومیت سے بھرا ایک خوب صورت چہرہ ہے اور اس چہرے پر خواب دیکھتی ذہانت سے بھری ہوئی آنکھیں۔ یہ تم کرن اشیاق، جس کی بہادرانہ جدوجہد، امید اور مستقل مزاجی نے میرا دل موہ لیا ہے اور میں ایک لکھی ہوئی کہانی کو پھر لکھنے بیٹھ گئی ہوں۔ میں ان تمام پیارے لوگوں کی شکر گزار ہوں، جن کے توسط سے تمہاری کہانی مجھ تک پہنچی۔ بصارت سے محروم اعجاز احمد کی شکر گزار ہوں۔ جس نے تمہاری غیر معمولی زندگی کو لفظوں میں ڈھالا اور پھر محمود شام جنہوں نے اطراف کے سرِ ورق پر تمہاری تصویر کو شائع کیا اور اس پر تمہیں فخر پاکستان لکھا۔ ورنہ تم تو جانتی ہو نا کہ یہاں سرِ ورق پر ہمیشہ گلیمر سے بھری ہوئی تصویریں چھاپی جاتی ہیں۔ کرن اشتیاق! تمہاری کہانی مجھ تک اس وقت پہنچی جب میں مارچ میں الجھی ہوئی تھی، عورت کے حقوق کے لیے ریلیاں نکال رہی تھی۔ میرا جسم میری مرضی کان نعرہ لگا لگا کر میرا حلق خشک ہو چکا تھا۔ میں اس ظالم سماج کی پابندیوں پر برانگیختہ اور بپھری ہوئی تھی۔ میں روایات اور اقدار کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر ان تمام زنجیروں سے آزاد ہونا چاہتی تھی۔ میں اس سماج کی پسماندگی اور مواقعوں کی کمی کا رونا رو رہی تھی کہ مجھ تک تمہاری کہانی پہنچ گئی۔ تمہارے بازو نہیں اور تم کسی مدد گار، بغیر امتحانی پرچے حل کرتی ہو۔ تمہارے ہاتھ نہیں اور تم گائوں کی لڑکیوں کو مہندی لگاتی ہو۔ تم ایک ادھورے وجود کے ساتھ رحیم یار خان اور اس کے آس پاس بسنے والے معذور افراد کی آسانیوں کے لیے باقاعدہ کام کر رہی ہو۔ تم تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک ویلفیئر کے ادارے میں خواتین ونگ کی انچارج ہو۔ تمہارے پائوں نہیں، ٹانگیں نہیں مگر تم خدمت خلق کے لیے ہمہ وقت متحرک ہو۔ تمہاری کوششوں کا ثمر ہے کہ رحیم یار خان اس وقت پنجاب کا وہ واحد شہر ہے جہاں خصوصی افراد کی رجسٹریشن کا کام شاندار انداز میں ہوا ہے۔ تم اتنی سی عمر میں اپنے شہر کی ایک باوقار سماجی شخصیت ہو تم اپنے ادھورے وجود کے ساتھ جب سٹیج پر آتی ہو تو معززین شہر تمہارے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تمہارے اور موت کے فیصلے کے درمیان آنے والی تمہاری ماں کو میرا آنسوئوں بھرا سلام پہنچے جس نے اس وقت بہادرانہ مگر نہایت مشکل فیصلہ کیا اور اس ماں کی محنت، مشقت اور دعائوں کی بدولت تم اپنے ادھورے وجود کے ساتھ امید کا ایک مکمل چہرہ ہو۔ہم سب کے سامنے موجود ہو اور مجھ جیسے کتنے نا شکروں کو امید اور شکر گزاری سکھا رہی ہو۔ تم ہی ہماری اصل ہیرو ہو کرن اشتیاق! ٭٭٭٭٭