خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے پہلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے کراچی سے آئے ہوئے ایک شاعر نے کہا کہ اردو کا اصل ذائقہ تو پنجاب میں آ کر چکھا ہے کیا اعلیٰ زبان پنجاب میں لکھی جا رہی ہے۔ بات کرنے کا مقصد جو تھا وہ تو تھا مگر ایک متعلقہ خوشخبری نے ہمیں حکومت کو داد تحسین دینے اور ایک سب سے اہم قومی مسئلہ کی طرف متوجہ کر دیا۔ فاطمہ قمر نے بتایا کہ سحر انگیز خبر ہے کہ حکومت نے انگریزی میں مراسلت پر پابندی لگا دی ہے اور آئندہ خط و کتابت اردو میں ہو گی۔ یہ تو گویا زندگی کی اس دہری نعمت کی صورت ہے جس کا تذکرہ سعدی نے اپنی گلستاں میں کیا ہے کہ سانس لینے میں اللہ کی دو نعمتیں ہیں ایک وہ جب آپ سانس اندر لے کر جاتے ہیں اور زندگی پاتے ہیں دوسری وہ جب آپ وہ سانس باہر نکال کر فرحت محسوس کرتے ہیں۔ سانس کا آنا اور جانا زندگی ہی کا تسلسل تو ہے۔ گویا انگریزی میں مراسلت بند ایک خوشی اردو میں آغاز دوسری خوشی۔ بات دوآتشہ ہو گئی۔ میرے پڑھنے والے حیران ہوتے ہونگے کہ میں کیوں ایسے نہال ہو رہا ہوں جبکہ میرا مضمون انگریزی ہے۔ ساری عمر یہی زبان پڑھائی اور اس کا ادب بھی۔ اور تو اور میں تو انگریزی میں خواب بھی دیکھتا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ انگریزی جاننے والے ایک گو نہ احساس برتری میں رہتے ہیں قبلہ بات یہاں انصاف حق اور سچ کی ہے۔ دوسرا یہ کہ میری قوم کی ترقی کا مسئلہ ہے ۔میں دل و جان سے اردو کے لئے تحریک چلانے والوں کے ساتھ ہوں۔ میری قوم کے لئے یہ زبان آب حیات سے کم نہیں اور یہ بات قائد اعظم جانتے تھے تبھی تو انہوں نے اسے قومی زبان قرار دیا مگر کالے انگریزوں نے اسے آئین کی تصدیق اور حکم کے باوجود لاگو نہ ہونے دیا جو ایک قومی المیہ ہے۔اس کا احساس قومی شعور رکھنے والوں کو گھن کی طرح کھا رہا ہے کہ ہم اپنی شناخت اور پہچان بھولے ہوئے ہیں۔ شکر ہے کہ پی ٹی آئی کو خیال آیا کہ وہ اردو میں یکساں نظام تعلیم کے لئے کوشش کرے خدا کرے کہ عمران خاں کم از کم اس پر یوٹرن نہ لیں میرا خیال ہے وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے کہ اردو غلامی کی نشانی ہے اور افسوسناک بات کہ انگریزی کے چار لفظ بولنے کو پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہندو اردو کو مسلمانوں کی زبان کہتا آیا ہے اور ہم احساس کمتری کے مارے ہوئے اردو کو اپنانے کے لئے تیار نہیں۔ آپ کو یاددلاتا چلوں کہ زبان کی اہمیت انگریز جانتا تھا۔ میکالے نے جب جا کر برطانیہ میں رپورٹ پیش کی تو بتایا کہ وہ ہندوستان کو صرف اسی صورت غلام رکھ سکتے ہیں کہ اپنی زبان وہاں رائج کریں نتیجتاً کیا ہوا کہ انہوں نے بیک جنبش قلم رائج فارسی زبان پر پابندی لگا دی اور بات یہاں تک جا پہنچی کہ پڑھو فارسی بیچو تیل۔ ساری ترغیبات انگریزی پڑھنے والوں کے لئے تھیں۔ زبان اکیلی نہیں ہوتی یہ اپنے ساتھ زبان بولنے والوں کا کلچر بھی لے کر آتی ہے پورا نظام بدل دیتی ہے۔ یہی بات جاپانی بھی جانتے تھے۔ انہوں نے سرنڈر کرتے وقت بھی امریکہ سے ایک بات منوائی کہ ان کی زبان ہی ذریعہ تعلیم رے گی۔ لہٰذا انہوں نے دوبارہ اپنی بلند سطح حاصل کر لی۔ جتنی بھی قوموںنے ترقی کی اپنی مادری زبان میں کی۔ ہم نے بدیسی زبان پر نوجوانوں کی قیمتی زندگیاں ضائع کر دیں۔ قرآن مجید بھی عربی زبان میں اترا کہ یہ مقامی زبان تھی اردو بھی پاکستان کے لئے مادری زبان ہی کی طرح ہے کہ یہ ہماری ہڈیوں میں راسخ ہے۔ آخر اس قوم پر چند بیورو کریٹ نے ایسا ظلم کیوں کیا۔ کیا ہم اتنے بے بس ہیں۔ ایک زمانے میں تو رئیس امروہوی وغیرہ نے سندھ میں اردو کا جنازہ بھی نکالا اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ غلامی کے دور میں ہم اس پر ناز بھی کرتے رہے۔ اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے مگر یہ کیا ہوا کہ ہم نے آزادی حاصل کرنے کے بعد غلامی کی زبان کو اپنانے کا فیصلہ کیا یقینا یہ ایک گھنائونی سازش تھی جس کو بے نقاب تو کیا گیا مگر اس کا شکار ہم ہوتے رہے ۔ایک زمانے میں اردو میں سائنسی مضامین کو بھی ڈھالا گیا مگر اس کی پذیرائی نہیں ہونے دی گئی۔ پھر چال چلی تو انگریزی پرائیویٹ سکول ملک بھر میں پھیل گئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس جال میں پھنستے چلے گئے۔ سرکاری سطح پر اگر اس کی پذیرائی ہوئی عدالتوں میں رائج ہوئی اور دوسرے اداروں میں بولی جاتی کوئی وجہ نہ تھی یہ سب کے لئے باعث فخر ہوئی۔ آپ دیکھیے کہ آزاد کشمیر نے اپنے ہاں اسے سرکاری زبان قرار دے دیا ہے۔ ہمارے ہاں عجیب منافقت ہے کہ مقدمے اور سرکاری میٹنگز میں ساری گفتگو اردو میں ہوتی ہے مگر فیصلے اور اعلانیے انگریزی میں تحریر کئے جاتے ہیں۔ کس قدر غلامانہ انداز ہے اور کیا احساس کمتری ہے کہ میں نے اردو کے پروفیسر کے وزیٹنگ کارڈ بھی انگریزی میں لکھے دیکھے۔ اردو کانفرنس کا کارڈ بھی انگریزی میں۔ اب اگر خط و کتابت اردو میں شروع ہو گئی اور بات آگے بڑھی تو اردو جاننے والوں کی طلب بھی بڑھے گی جن لوگوں نے اس قوم کو اس کی زبان سے محروم رکھا وہ اس کے مجرم ہیں۔ اپنی اجارہ داریوں کے لئے قوم کو آزادی کے بعد بھی محکوم رکھا۔ محترم رشید انگوی نے ڈاکٹر خالد علوی کا ایک فقرہ کوٹ کیا کہ بات اس سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ اس قوم پر انگریز مسلط کرنے والوں کے ذہن چوہوں سے بھی چھوٹے ہیں کہ جنہیں یہ علم نہیں کہ وہ اردو کو چھوڑ کر اس قوم کی ترقی روک رہے ہیں۔ اردو کا کمال یہ ہے کہ عقب میں فارسی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جس میں ہمارا بہت کچھ پڑا ہے اور پھر وہاں سے یہ عربی کے ساتھ جڑ جاتی ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ہمارے بزرگ اردو فارسی اور عربی میں طاق ہوا کرتے تھے۔ آپ ان کی تحریر بھی پڑھیں۔ ایک گھمبیرتا ملتی ہے۔تخلیق میں آپ دیکھ لیں کہ اردو شعرا اور ادبا کو ہی شہرت ملی کہ ان کو قاری ملے اور مداح نصیب ہوئے۔ آپ انگریزی کے دو تین مصنف یا ادیب نہیں بتا سکیں گے کہ آپ چینلز دیکھیں کہ انگریزی چینل نہیں چل سکے آخر انہیں اپنی زبان کا سہارا لینا پڑا۔ سرکار نے بہرحال عوام کو سرکاری نظام سے دور رکھا۔ انگریزی کا آپ کی عملی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں اور یہی ہمارے دشمن چاہتے ہیں۔ بچے کی صلاحیتیں انگریزی کو رٹا لگانے میں صرف ہو جاتی ہیں۔ اس کی دماغی نشو و نما صرف اپنی زبان ہی میں ہو سکتی ہے۔ بے تکلف ہوا تو پہلی بار اس نے اردو میں بات کی مجھ سے انگریزی کو سٹیٹس سمبل سمجھنے والو! دراصل آپ اپنے وجود کا انکار کر رہے ہیں۔ آپ صرف اپنی زبان ہی میں نمبر ون ہو سکتے ہیں۔ کسی کی زبان اپنانا تو نقالی ہے۔ آپ کچھ بھی کر لیں بدیسی زبان میں آپ اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر سکتے۔ بہرحال اردو کے لئے تحریک چلانے والوں کا اثر کچھ کچھ نظر آنے لگا ہے۔ لگتا ہے رفتہ رفتہ قوم جاگ جائے گی اور ان کالے انگریزوں کا ضرور محاسبہ کرے گی جنہوں نے ان سے ان کی زبان اور اظہار چھینا ہوا ہے اور انہیں جاہل سمجھ رکھا ہے ایک شعر کے ساتھ اجازت: سر تسلیم خم ہے کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے