نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے دورے کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے سمارٹ لاک ڈائون کے نتائج کو اطمینان بخش قرار دیا۔ وزیر اعظم نے عسکری قیادت کے ہمراہ ادارے کی 100روزہ کارکردگی کو سراہا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سمارٹ لاک ڈائون سے غریب افراد کی زندگی متاثر کئے بغیر وبا پر قابو پانے میں مدد ملی اور معیشت پر منفی اثرات کی شدت میں کمی آئی۔وبا کے ایام میں ایک نئے ادارے کا قیام اور پھر اس کے فیصلوں کو پورے ملک میں یکساں طور پر نافذ کرنے کی کوشش سیاسی اور انتظامی سطح پر وہ پہلا اقدام ہے جس کو حکومت اور اپوزیشن کی حمایت مساوی طور پر حاصل ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر ستائیس مارچ کو قائم کیا گیا۔ اس کے قیام کا مقصد ملک میں کورونا وبا کے انسداد کے لئے کام کرنے والے اداروں کی رہنمائی اور وقتاً فوقتاً ایسی سفارشات پیش کرنا ہے جن سے انتظامی سطح پر کورونا وبا کو کنٹرول کرنے میں سہولت ہو۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر میں حکومتی اور عسکری حکام ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔یہ سنٹر کورونا کی شرح میں کمی اور اضافے کے ریکارڈ پر نظر رکھتا ہے مختلف علاقوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ طبی عملے کی ضروریات اور صلاحیت کے متعلق فیصلے ہوتے ہیں۔ این سی او سی نے ملک بھر میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا۔ کورونا ٹیسٹنگ کی صلاحیت چار سو بہتر سے بڑھا کر پچاس ہزار یومیہ کی گئی۔ لیبارٹریوں کی تعداد دو سے بڑھا کر ایک سو بتیس ہوئی۔ حکومت نے ازخود لاک ڈائون کا فیصلہ کرنے کی بجائے نیشنل کمانڈ سنٹر کے ماہرین کی تجویز پر مختلف شہروں میں لاک ڈائون کا فیصلہ کیا۔سمارٹ لاک ڈائون کا فیصلہ بھی نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کی تجویز پر کیا گیا ہے۔ اس ادارے کی افادیت اس لحاظ سے بھی قابل ذکر ہے کہ اس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہے۔ یہاں جو پالیسی بنائی جاتی ہے وہ پورے ملک میں نافذ ہو جاتی ہے۔ حکومتی رپورٹس میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں دنیا کے باقی ملکوں کی نسبت کورونا کے مریضوں اور اس کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے افراد کی شرح کافی کم ہے۔ وائرس کی شدت میں کمی کے علاوہ یقینا اس سلسلے میں سرکاری تدابیر کا موثر رہنا بھی اہم ہے۔ ملک کے بڑے شہر قومی معیشت کا مرکز ہیں۔ان شہروں میں کاروبار بند ہو تو یومیہ اربوں روپے کا خسارہ قومی خزانے کو بھگتنا پڑتا ہے۔کورونا کے انسداد کی خاطر جب پاکستان میں لاک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا اور ڈیڑھ ماہ تک اکثر علاقوں میں کارخانے‘ ٹرانسپورٹ ‘ شاپنگ مالز‘ مارکیٹس اور تفریح گاہیں بند رہیں۔ تعمیرات کا شعبہ بند رکھا گیا۔ سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ کورونا وبا کے باعث پہلے سے خراب معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے حکومت نے بینکوں کی شرح سود کو 13فیصد سے مرحلہ وار کم کر کے 7فیصد کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ پاکستان میں متاثرہ افراد کی گنتی 2لاکھ 25ہزار سے زاید بتائی جا رہی ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ایک روز میں صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد متاثرہ افراد سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال نے حکومت کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کا موقع دیا ہے۔ مکمل لاک ڈائون سے یقینا غریب اور دیہاڑی دار افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ حکومت نے ایسے افراد کی مالی مدد کے لئے احساس کفالت پروگرام شروع کیا۔ عوامی سطح پر بھی شہریوںنے کم آمدن والے افراد کی اعانت کی لیکن ہر قسم کا کاروبار بند ہونے کی وجہ سے صرف امداد پر انحصار کر کے یہ مشکل وقت نہیں گزارا جا سکتا تھا اس لئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کی مشاورت سے مرحلہ وار کچھ کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی گئی۔ سب سے پہلے تعمیراتی شعبے کو کام کی اجازت دی گئی تاکہ دیہاڑی دار افراد کام پر لگ سکیں۔ تعمیراتی کاموں کی حوصلہ افزائی کے لئے حکومت نے میٹریل اور پلاٹس کی خریداری پر ٹیکسوں کی شرح کم کر دی۔ بعدازاں ٹرانسپورٹ اور کچھ کارخانوں کو بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کی یقین دہانی پر کام کرنے کی اجازت دیدی۔عید سے کچھ روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک حکم کے ذریعے شاپنگ مال اور مارکیٹس کھولنے کی اجازت دیدی۔اس فیصلے کو حکومت نے تسلیم کیا لیکن عید کے بعد کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد جس تیزی کے ساتھ بڑھی اس نے حکومتی اور عوامی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی۔ اس صورت حال میں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا کہ حکومت ایک بار پھر لاک ڈائون کی طرف جائے کیونکہ تاجر‘ صنعت کار اور مزدور سڑکوں پر آ سکتے تھے۔ اس لئے سمارٹ لاک ڈائون متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سمارٹ لاک ڈائون میں صرف ان گلیوں اور علاقوں کو بند کیا جاتا ہے جہاں کورونا مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہو۔ حکومت نے عام شہری کو وبا اور معاشی نقصانات سے بچانے کے لئے حتی المقدور کوشش کی جسے سراہا جا سکتا ہے تاہم ٹیسٹوں کی فیس کم کرانے‘ سرکاری ہسپتالوں اور قرنطینہ مراکز میں متاثرہ افراد کی دیکھ بھال اور متعلقہ ادویات کی کم قیمت پر دستیابی کے متعلق شکایات دور نہیں کی جا سکیں۔ سمارٹ لاک ڈائون کے حوالے سے بھی بعض شکایات ملی ہیں کہ یہ ان علاقوں میں بھی لگایا جا رہا ہے جہاں کوئی مریض نہیں۔حکومت اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کی کارکردگی کو سراہنے کے ساتھ اس بات کی نشاندہی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عوام کی شکایات کم کیوں نہیں ہو رہیں۔