معزز قارئین!۔ 20 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت میں ثالثی کی پیشکش کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ’’ جو کچھ میرے بس میں ہُوا ، مَیں کروں گا‘‘اور 20 اگست ہی کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کِیا گیا ہے کہ ’’ پاکستان کشمیریوں کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑے گا ، اُن کی سیاسی و اخلاقی حمایت جاری رکھے گا اور یہ کہ ’’پاکستان تنازع کشمیر ’’عالمی عدالت ِ انصاف ‘‘ میں لے جائے گا اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی 9 ستمبر کو ’’ عالمی انسانی حقوق کمیشن‘‘ میں اُٹھایا جائے گا ‘‘۔ وزیر خارجہ پاکستان جناب شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے پر 14 ممالک متفق تھے لیکن، ذرائع کے مطابق "Permanent Five, Big"ملکوں میں ’’فرانس کے سوا باقی چار ۔عوامی جمہوریہ چین ، روس، برطانیہ اور امریکہ ‘‘نے پاکستان کی حمایت کی تھی‘‘۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دَوران ، پاکستان اور بھارت میں تنازع کشمیر حل کرانے کے لئے امریکی صدرجناب ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے باوجود بھارتی وزیراعظم مسٹر مودی کی حرکات کے باعث مقبوضہ کشمیر میں حالات جس تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اُس کے باعث حکومتِ پاکستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر اعتماد نہیں رہا؟۔ اصولی طور پر تو، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازع کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے ذریعے ہی ہو جانا چاہیے تھا لیکن، اب صورت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ’’ پاکستان پہلی مرتبہ تنازع کشمیر کا فیصلہ کرانے کے لئے ’’ عالمی عدالتِ انصاف ‘‘ رجوع کر رہا ہے ۔ اِس پر مَیں کیوں نہ اقوام متحدؔہ کے بارے میں اپنے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ کے دو شعر پیش کردوں کہ …… چند مُلکوں نے بنایا، سامراجِ مُک مُکا! بن گیا ، اقوامِ متحدّہ ، سماجِ مُک مُکا! تیسری دُنیا سے ، لیتے ہیں ، خراجِ مُک مُکا! جاری و ساری ، ہے یہ کیسا ، رَواجِ مُک مُکا! …O… سامراجِ مُک مُکا میں ’’فرانس ‘‘ بھی شامل ہے۔ مجھے یاد آیا کہ نائن الیون کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیویارک گئے تو، اُن کی میڈیا ٹیم کے ایک رُکن کی حیثیت سے مَیں بھی اُن کے ساتھ تھا ۔ جنرل اسمبلی کی تقریبات کے بعد مَیں نے کچھ دِن 1992ء سے نیو یارک میں"Settle"اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کے گھر گزارے ۔دو دِن بعد ذوالفقار علی چوہان ، میری بہو ڈاکٹر عالیہ چوہان اور چھوٹا بیٹا انتظار علی چوہان مجھے نیویارک کی سیر کرانے نکلے تو، میرے چھوٹے بیٹے انتظار علی چوہان نے مجھ سے کہا کہ ’’ ابو جی!۔ ’’آزادی کی دیوی ‘‘ دیکھنے چلیں؟‘‘۔ مَیں نے اُسے کہا کہ ’’ عزیز از جان !۔ مَیں اِس سے پہلے تم لوگوں کے ساتھ 2003ء میں ’’ آزادی کی دیوی ‘‘ دیکھ چکا ہُوں ۔ اگر اُس میں کوئی کوئی تبدیلی آ گئی ہے یا اقوام عالم کے بارے میں امریکہ کا نظریہ بدل گیا ہے تو ، مَیں اُسے پھر دیکھنے کے لئے تیار ہُوں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ ریاست ہائے امریکہ نے 4 جولائی 1776ء کو برطانیہ عظمیٰ کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کا اعلان کِیا تھا لیکن، حیرت ہے کہ ’’ امریکیوں نے 110 سال تک اپنی آزادی کی کوئی یادگار قائم نہیں کی تھی۔ یہ اعزاز ’’اہلِ فرانس ‘‘ کو حاصل ہُوا کہ ’’ جنہوں نے دوستی کی علامت کے طور پر امریکیوں کو 28 اکتوبر 1886ء کو ’’ مجسمۂ آزادی‘‘ (Statue of Liberty) پیش کِیا۔ یہ مجسمہ آزادی کی رومن دیوی "Libertas" کے نمونے پر ہے۔ مجسمۂ آزادی ۔ رومن لباس پہنے، ایک مشعل بردار خاتون جس کے ہاتھ میں قانون کی تختی بھی ہے اور غلامی کی ٹوٹی ہُوئی زنجیریں بھی اُس کے پیروں میں پڑی ہیں ۔ دُنیا کے کسی بھی کونے سے ، جب بھی کوئی شخص سرکاری یا نجی دورے پر نیویارک جاتا ہے تو ، میزبان اُسے ’’ مجسمۂ آزادی ‘‘ ضرور دِکھاتے ہیں ۔ 5 مئی 1789ء کے ’’ انقلابِ فرانس‘‘ نے تو، نہ صِرف اہلِ فرانس کو فرانس کے بادشاہ لوئی شانزدہم (Louis XVI) کے ظلم و ستم سے نجات دلا دِی تھی ، بلکہ اُس کے بعد سارے یورپ میں جمہوریت کا بول بالا ہوگیا تھا ۔ معزز قارئین!۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒکی قیادت میں 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہُوا ۔حیرت ہے کہ ’’ہندوئوں کی مُتعصب سیاسی جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی ؔ اور اُن کے چیلے پنڈٹ جواہر لعل نہرو کے "Secularism" کی تعریف کرنے والے اور "Secularism" کی علمبردار پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیٹی ’’ مسز اندرا گاندھی‘‘ کی مذّمت کیوں نہیں کرتے؟۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب اُلرحمن نے تو، 26 مارچ 1971ء کو ہی (پاکستان سے آزادی کا اعلان کر کے ) مشرقی پاکستان کا نام بنگلہ دیش رکھ دِیا تھا۔ مسز اندرا گاندھی کی حمایت سے 16 دسمبر 1971ء پاکستان دولخت ہوگیا ۔20 دسمبر 1971ء کو مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور 1974ء میں بنگلہ دیش کو آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرلِیا تھا ۔ دونوں آزاد ملکو ںمیں کتنا زیادہ "Brotherhood" ( بھائیوں کا باہمی رشتہ) ہے ؟۔ مَیں نہیں جانتا ؟ لیکن ، مَیں جب کبھی اپنے بیٹوں اور اُن کے اہلخانہ کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لئے لندن جاتا ہُوں تو "Collires Wood" کی جامع مسجد ’’دار اُلامان‘‘ میں بنگلہ دیشی امام صاحب کی اقتداء میں نمازِ عید یا نمازِ جمعہ ضرور پڑھتا ہُوں اور بعد از نماز مَیں جب پاکستانی اور بنگلہ دیشی نمازیوں سے گلے ملتا ہُوں تو، مَیں یہی دُعا کرتا ہُوں کہ ’’ اللہ کرے !۔ کم از کم ہم دونوں ملکوں کی "Brotherhood" تو پروان چڑھتی رہے لیکن، خدانخواستہ اگر ’’عالمی عدالت ِ انصاف ‘‘ سے بھی مظلوم کشمیریوں کو انصاف نہ ملا تو، مَیں کیا کر لوں گا؟، جو کچھ کرنا ہے وہ تو، کشمیری حریت پسند ہی کریں گے؟ ، یا پھر پاک فوج کے افسران اور جوان؟ ۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم ’’طارق کی دُعا ‘‘ میں غازیوں کے بارے میں پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ … یہ غازی ، یہ تیرے ، پُر اسرار بندے! جنہیں تُو نے ، بخشا ہے ، ذوقِ خُدائی! دو نیم، اِن کی ٹھوکر سے ، صحرا و دریا! سمٹ کر ،پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی ! شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن ! نہ مال غنیمت نہ کِشور کُشائی!