کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتی روز کا معمول بن چکی ہے۔ معصوم بچیوں کے لیے وطن عزیز کا ہر شہر قصور بن چکا ہے۔ معلوم نہیں کہ کس بچی کا مقدر اس معصوم زینب جیسا بن جائے ۔ بچیوں کے ساتھ مجرمانہ کارروائیاں صرف ایک صوبے تک محدود نہیں۔ گذشتہ ہفتے سندھ میں دو بڑے واقعات سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے۔ ایک معصوم بچی لاڑکانہ کی تھی۔ اس کا نام مرک تھا۔ سندھ میں مرک کا مطلب ہوتا ہے ،مسکراہٹ۔ وہ بچی جو مسکراہٹ تھی،اس کو ایک وحشی چیخ میں تبدیل کیا گیا۔ سندھ میں احتجاج ہوا۔مجرم گرفتار ہوا۔ ابھی اس واقعے کو دو دن بھی نہیںگذرے تھے۔ ابھی مرک نامی بچی کے زخم بھی نہیں بھرے تھے کہ سندھ کے ایک اور شہر دادو میں چار برس کی بچی جنسی تشدد کا نشانہ بنی۔ کیا کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ چار برس کی بچی اور جنسی درندگی؟ایسے واقعات سننے کے بعد انسان کے اندرمیں ایک چیز ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ چیز ہے انسان کا اعتبار! انسانی معاشرہ بہت سارے اسباب کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔ معاشرے کی تشکیل میں بہت سارے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ مگر ان سب چیزوں کو اگر کوئی چیز جوڑ کر رکھتی ہے تو وہ ہے اعتبار۔ اعتبار معاشرے کی روح ہوتی ہے۔ اعتبار کے بغیر معاشرہ مردہ ہوتا ہے۔ جب کمسن اور معصوم بچیوں پر جنسی حملوں کے واقعات پڑھتے ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے ، جس معاشرے میں ہم زندہ رہنے کی قیمت ادا کر رہے رہیں، وہ نہ صرف گلا سڑا ہے بلکہ مردار ہے۔ جب ایسے واقعات پیش آتے ہیں، تب ایسا لگتا ہے کہ کسی نے گٹر سے ڈھکنا ہٹا دیا ہے۔ اس قدر بدبو؟ اس قدر بدبو کہ انسان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ معصومیت پر حملہ صرف وحشت ہی کرسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کتنے وحشی بستے ہیں؟ ہمیں معلوم نہیں۔بظاہر تو ہر درندے نے انسان ہونے کا نقاب اپنے چہرے پر چڑھا رکھا ہے۔ ہم ان کی شناخت کس طرح کرسکتے ہیں؟نہیں جانتے کہ جو شخص ہمیں انسان نظر آتا ہے کیا معلوم کہ اس کے اندر بھی ایک جنسی بھیڑیا چھپا بیٹھا ہے۔ وہ جنسی بھیڑیا کسی کا شکار کرنے جا رہا ہے یا کسی کا شکار کر کے آ رہا ہے؟ ہم کچھ نہیں جانتے۔ ہم انسانی بھیڑ میں جنسی بھیڑیے کس طرح تلاش کریں؟ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ہمیں یہ علم بھی ہونا چاہئیے کہ اس قسم کے جنونی اور وحشی لوگ سیریل کلرز کی طرح ہوتے ہیں۔ جب بھی بچوں سے زیادتی کرنے والا کوئی مجرم پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے، تو وہ بتاتا ہے کہ یہ اس کا پہلا جرم نہیں ہے۔ اس سے قبل وہ بہت سارے بچوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنا چکا ہے۔ ایسے درندے قانون کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ انہوں نے بہت سارے بچوں کو نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ انہیں زیادتی کے بعد قتل بھی کردیا۔ لاہور میں تو ایک مجرم ایسا بھی تھا جو نہ صرف بچوں سے زیادتی کرکے انہیں قتل کرتا تھا بلکہ قتل کرنے کے بعد انہیں تیزاب میں ڈال کر ان کے ننھے منے وجودوں کو تحلیل کردیتا تھا۔ ایسے وحشی پاگل ہمارے معاشرے میں بظاہر انسان بن کر گھوم پھر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ ہم ان درندوں سے بچوں کو کس طرح بچائیں؟میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ صرف بچوں کو ایسے معاملات سے آگاہ کرکے ہم انہیں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جنسی زیادتی کے بارے میں تو جوان لڑکیاں بھی کسی کو بتانے میں شرم اور خوف محسوس کرتی ہیں۔ جب میڈیا پر می ٹو Me too نامی مہم چلی تھی، تب کتنی مشہور عورتوں نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے ساتھ کئی برس قبل جنسی زیادتی ہوئی تھی۔ اس شخص کا دماغ کس طرح درست ہو سکتا ہے جو سمجھتا ہے کہ صرف بچوں کو آگاہی دینے سے اس درندگی سے محفوظ رہا جا سکتا ہے! یہ کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔امریکہ جیسے ملک کی فوج میں ملازمت کرنے والی خواتین کے ساتھ افسران جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ وہ اپنے لب بند رکھنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، تو معصوم بچے کس طرح زبان کھول پائیں گے؟ بچوں کے ساتھ جنسی درندگی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ۔ یہ ایک عالمی آفت ہے۔پوری دنیا کے لیے ایک بہت بڑا چیلینج ہے۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے عالمی سطح پر حل تلاش کرنا ہونگے۔اس جرم کے دائرے میں کسی ایک مذہب ، زبان یا رنگ و نسل کو داخل نہیں کر سکتے۔ یہ بڑا مسئلہ ہے۔ آپ جس ملک کا نام لیں،اسی ملک میں اس قسم کے واقعات نظر آئیں گے۔وزیر اعظم عمران خان نے اس سلسلے میں جو قانون عمل میں لانے کی کوشش کی۔کیاقانون بننے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا قانون اور انصاف بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ ہمارے قانون اور انصاف کے نظام میں بہت زیادہ خامیاں ہیں۔ پہلے ان خامیوں کو دور کریں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے جو ماں اپنے بچوں کے سامنے جنسی دردندگی کا شکار ہوئی تھی ،اس ماں کی جھولی میں انصاف آیا؟ یانہیں۔ قانون نافذ کرنے والے افراد کی تعلیم و تربیت ایسی نہیں کہ آسانی کے ساتھ جنسی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ہمارا میڈیا بہت ساری باتوں میں قابل تنقید ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ معاشرہ ایسے افراد سے پاک ہو جو درندگی کی آخری حدود کو بھی عبور کر جاتے ہیں۔ جوانی میںسنا کرتے تھے کہ ان واقعات کا اہم اور بنیادی سبب جہالت ہے۔ جب تعلیم عام ہوگی تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کیا یورپ اور امریکہ میں تعلیم نہیں ہے؟ مغرب تو اعلی تہذیب کا داعی ہے۔ کیا یہ وہی مغرب نہیں، جہاں اعلی تعلیم یافتہ افراد پورن چائلڈ جیسے جرم میں ملوث ہیں؟ انہوں نے بچوں کی جنسی استحصال کو کاروبار کی شکل دی ہے۔ ان لوگوں نے پوری دنیا میں اپنے مکروہ نیٹ ورک بنا رکھے ہیں۔ کیا ایشیا؛ کیا افریقہ! وہ ہر مقام کے بچوں کو اپنے مجرمانہ کاروبار میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ پکڑے بھی جاتے ہیں۔ انہیں سزائیں بھی ملتی ہیں۔ ان پر لعنت اور ملامت بھی ہوتی ہے۔ مگر ان سارے کاموں کے باوجود بھی یہ جرم قابو میں آنے کے بجائے کینسر کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ اس جرم کی جڑ کہاں ہے؟ ہم کس طرح معصوم بچوں کو اس گھناؤنی صورتحال سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ یہ سوال پھر ہمیں اس سوال کی طرف لاتا ہے کہ آخر اس جرم کی جڑ کہاں ہے؟ سائنس کا بھی یہی اصول ہے۔ جب تک کسی وبا کا سبب معلوم نہیں ہوگا تب اس کا مکمل علاج نہیں ہو سکتا۔ قائرین سے التماس ہے کہ اس سلسلے میں اپنے مشورے دیں تاکہ ہم سب مل جل کر اس جرم کو ختم کرنے کی تدبیر تلاش کریں۔ وہ جرم کا نشانہ بننے والے معصوم بچے اور بچیاں روتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔ اس ملک کے عظیم صوفی دانشور اورادیب اشفاق احمد کہا کرتے تھے آنسوؤں کی تو ایک ہی زباں ہوتی ہے۔