الیکشن ہو گیا روایتی تنائو اور پھر تقاضا ہائے انتخابی روایت کا سامنا بھی ہوا۔مقامی اور قومی سطح پر شکایات کا اظہار بھی قولی اور تحریری طور پر جاری ہے البتہ ایک واضح تغیر جوماقبل از انتخابات نظر آتا تھا وہ وقوع پذیر ہوا۔ قومی سطح کے مشترکہ مسائل پانی‘ صحت ‘ امن و امان اور حکمران طبقے کی مراعات یافتہ زندگی ہمیشہ ہی شکایات کا باعث بنے ہیں۔10سال سے مسلسل اور 35سال سے وقفہ وقفہ سے حکمران جماعت کی شکایات کا ایک خاموش ردعمل بالآخر تبدیلی کی صورت میں رونما ہو۔ عوامی تجزیے میں عموماً لوگ نئی اور پرانی سیاسی جماعتوں کا تقابل کرتے ہوئے یہ رائے دیتے نظر آتے تھے کہ پرانے حکمرانوں کو ہم ایک طویل عرصے سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ وہ عمومی مشترکہ عوامی مفادات کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں اس لیے ہم نئے لوگوں کو منتخب کر کے ان سے اچھے اقدامات کی توقع رکھتے ہیں یہ حقیقت تھی اور سادہ انسانی مزاج کا مطالبہ بھی فطری ہے انتخابی سیاست اور حکومت سازی میں کچھ اندازے حقیقی توقعات سے مختلف ہوتے ہیں۔ اب ایسا ہی ماحول حسب سابق ہماری قومی سیاست کو اپنے دائرہ عمل میں لیے ہوئے ہے۔ پاکستان میں انتخابی اتحاد اور حکومت سازی کے وقت کاغذی منشور یا زبانی وعدے محض ایک سیاسی مقبولیت کی خاطر ہوا کرتے ہیں۔ پرانے لوگ اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں اس لیے وہ ایسی باتوں پر کم ہی کان دھرا کرتے ہیں۔ برادری سسٹم اور مذہبی تقسیم بھی اپنی بنیادی وجودیت سے بہت کم ہی انحراف کرتی ہے۔ یہ حقائق ہر سیاسی دنگل میں وارد ہونے والے کھلاڑیوں پر پوری طرح سے واضح ہوئے ہیں۔ البتہ نیت کا درست ہونا‘ کمزور اور بے کس غریب عوام الناس کے لیے خانہ دل میں دردہونا اور پھر وطن کے وقار کا خانہ، ذہن میں احساس ہونے کے ساتھ بقائے وطن کی فکر ہونا بھی اپنی جگہ ایک ایماندارانہ سیاست کا بنیادی تقاضا ہے۔ ہمارے اکثر مدعیان راہبری کی فکری بہتری کسی ایسے سیاسی کھیت میں اگی ہوئی ہے جہاں وطن کی محبت کے لیے ہمدردی کی ضیائی تالیف میسر نہیں ہوتی۔ وہ اغیار سے محبت کو اپنی عزت سامانی شمار کرتے ہیں وہ کمزور اور بے سہارا عوام کو کالانعام یعنی چوپایوں کے برابر شمار کرتے ہیں۔ ملک کے مشترک عوامی مسائل کے حل کے لیے کوئی عملی اقدام کی صورت تو کیا تجویز میں بھی وہ بے چارے کنجوس ہی واقع ہوئے ہیں۔ اس انتخابی عمل میں دایاں یا بایاں بازو نعرہ نہیں تھا بس شخصی حوالے اور بہت ہی کم مذہبی حوالے تھے۔ لیکن مذہبی حوالے بھی روایتی‘ مفاداتی اور سیاسی جوڑ توڑ کے ماہرین ہی سے وابستہ تھے۔ ایک جماعت متحدہ مجلس عمل کے نام سے صفحہ انتخاب پر نمودار ہوئی لیکن یہ بالکل لوٹے کا منہ دھونا تھا۔ جسے پنجابی زبان میں گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنا کہتے ہیں۔شیعہ ‘ سنی ‘ دیو بندی‘ بریلوی ‘ اہلحدیث اپنی مذہبی تقسیم میں عوامی سطح پر اتنے گہرے ہیں کہ ان کا دائمی اتحاد ان کا فکری اتفاق جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ ابھی تک مدارس میں جس علمی و فکری لحاظ سے علماء و مبلغین تیار کئے جاتے ہیں وہ ایک مستقل اختراق‘ ذہنی فساد اور بسا اوقات معرکہ آرا تصادم کے راستے کو ہموار کر رہے ہوتے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل میں اہلحدیث کے نمائندے ایک سیاسی پارٹی کے مستقل اتحادی ہیں۔ فقہ جعفریہ کا نمائندہ ایک عارضی ضرورت کے مطابق اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ جماعت اسلامی کا اپنا فکری اور جماعتی تشخص ہے۔ ایسے عارضی اتحادوں سے جڑ کر علیحدہ ہونے کا تقاضا بہرحال رہتا ہے۔ جماعت اسلامی کا سیاسی اور حکمرانی کے سفر میں غیر مذہبی سیاسی جماعتوں سے وقتی اور عارضی اتحاد کا ایک باقاعدہ رویہ ہے جو ہماری سیاسی تاریخ کا ثابت شدہ حصہ ہے۔بریلوی مکتب فکر کا نمائندہ بھی ہے جو حلقہ مذہبی اور سیاسی حلقے میں اکثریتی حمایت کی نعمت سے محروم ہے کیونکہ وہ متفرق جے یو پی کے ایک حصے کے سربراہ ہیں۔ بریلوی مکتب فکر کی سیاسی زندگی اور قیام پاکستان کے لیے عملی جدوجہد اور پھر پاکستان میں مختلف ملی تحریکوں میں قائدانہ کردار نے پاکستان کی مذہبی اور سیاسی روایات کو حوصلہ عطا کیا ہے لیکن شومئی قسمت علماء اور سیاسی کارکنوں کے اختلافی رویوں کے سبب وہ اپنی جماعتی قوت کو برقرار نہ رکھ سکے۔ رہی بات مولانا فضل الرحمان صاحب کی سیاسی بصارت کی تو مشرف دور کی مجلس عمل کی کارکردگی پر تو اس دور کے اتحادیوں کے تحفظات اور پھر مجلس عمل کی شکست و ریخت نے ایک نئی سوچ کو جنم دیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہر مقتدر جماعت کے ساتھ شریک اقتدار رہے ہیں اور اپنے سیاسی جماعتی فوائد کو پوری طرح سے حاصل کرتے رہے ہیں کشمیر کمیٹی کی سربراہی میں ان کی کارکردگی اہل دانش و فکر پر پوری طرح عیاں ہے۔ اب نئے سیاسی جوڑ میں ان کا موقف بہت جارحانہ ہے شکست کے بعد بیان دیا کہ ہم کسی کو اسمبلی میں داخل نہیں ہونے دینگے اس بیان سے ان کی طبیعت کی جارحیت اور الفاظ کی شدت سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید آنے والی اسمبلی ایک شجر ممنوعہ ہے۔ حالانکہ ختم نبوت کے تحفظ کے قانون پر آرا چلانے والی اسمبلی بارے حضرت مولانا کا رویہ بہت زیادہ مفاہمانہ اور نہایت لچکدار تھا پھر حلف نہ اٹھانے کا عندیہ قوم کے سامنے آیا بالآخر غیر مذہبی سیاسی حضرات خورشید شاہ صاحب اور شہبازشریف صاحب کی موجودگی میں انہوں نے اپنے موقف سے رجوع فرما لیا۔ خیر یہ ایک رویہ ہے‘ عنوان یا نتیجہ اہل وطن پر از خود واضح ہو جانا چاہیے۔ ایک بیان کسی جانب سے یہ بھی نشر ہوا اور اخباروں کی زینت بنا کہ 1977ء کی طرز پر دھواں دارتحریک چلائی جائے گی۔1977ء کی تحریک میں بھٹو مرحوم ہدف تھے وہ ہدف پورا ہوا۔ پھر ضیاء الحق مرحوم کی سنگت میں محرکین اقتدار کے تخت پر تھے۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعد جنرل صاحب سے جدائی ہوئی اور پھر نظام مصطفی ﷺ کا نعرہ متروکات میں رکھ چھوڑا۔ نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی ماضی کی سیاست کا حصہ بن گیا اب ایم آر ڈی اور تخریب تھی ہنگامہ تھا اور فساد تھا۔ تحریک نظام مصطفیﷺ کے اہداف دینی جماعتوں کے اختلاف کے باعث فراموش ہو گئے اور نئی سیاسی حلقہ بندیاں وجود میں آ گئی تھیں پھر ترجیحات بدل گئیں اور نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کرنے کی خواہش طویل ہوتی گئی۔ اب کوئی اقتدار کی کرسی پر ہو یا اختلاف کے مراعات یافتہ دفتر میں، سب پر واجب ہے کہ وہ اپنا قبلہ، نیت ،آئین دین اور آئین پاکستان کے تحفظ کے لیے مستقل درست رکھے۔ خوف خدا عزوجل اور وفاداری مصطفی ﷺ کو اپنے ظاہر و باطن کا عملی ہتھیار بنا کر قومی خدمت کا حلف اٹھائے اور اپنی عارضی زندگی کو دائمی زندگی کیلئے جذبہ دینی اور ملی درد کے رویوں کے ساتھ استعمال کرے اور دنیائے اسلام میں پاکستان کی قیادت و امامت کے لیے ایسا جانبازانہ کردار ادا کرے کہ ہماری قومی شناخت کے چہرے پر موجود ہر ناخوشگوار دھبہ دھل جائے۔ اقوام عالم میں ہماری قوم اور قومیت کے بارے میں عزت و وقار کے آثار جنم لیں۔ یاد رکھیے کہ اقتدار یا اختلاف کی صفوں میں موجود جس سیاستدان یا ذمہ دار نے دین یا وطن کے بارے میں منفی رویے اور بدنیتی کی سوچ کو پروان چڑھایا وہ بالآخر ذلت کا منہ دیکھے گا اور ہر دو جہاں میں خدائی غضب کے سانپ اسے ڈستے رہیں گے۔ پاکستان تو زندہ باد ہی رہے گا لیکن پاکستان کا برا سوچنے والے ہمیشہ ہی مردہ باد رہیں گے۔