پی ٹی آئی کا کمال یہ ہے کہ اچھا کام برے طریقے سے کرتی ہے اور ایک ہی وقت میں وہ سب کچھ ٹھیک کر دینا چاہتی ہے مگر اپنے آپ کو نہیں! کام کے لئے حکمت عملی اور منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی بھی اقدام کرنے کے لئے ہوم ورک ازبس ضروری ہے حالات پہلے ہی دگرگوں ہیں اقتصادی اور معاشی صورت حال میں لوگ سراسیمگی میں ہیں۔ حکومت ہے کہ آئے روز ایک نیا مسئلہ پیدا کرلیتی ہے۔ پھر اسے حل کرنے میں وقت کاٹتی محسوس ہوتی ہے۔ ایک نیا معاملہ سامنے آ گیا ہے۔ کہ سرکاری اساتذہ کے اکیڈمیوں اور نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اب اساتذہ کو پرائیویٹ اداروں میں نہ پڑھانے کا بیان حلفیہ دینا پڑے گا اور اس کے علاوہ خفیہ ٹیمیں چھاپے ماریں گی کہ کوئی حلف کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا۔ دوسری طرف اساتذہ کی تنظیم کے صدر حافظ عبدالخالق نے سخت ردعمل دیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف احتجاج کریں گے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یکایک یہ فیصلہ کیسے کر لیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ وہ کالج میں اپنی ذمہ داری پوری کریں اور کالج اوقات میں ٹیوشن ورک بند کریں۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایسا مسئلہ سامنے آیا ہے کہ کچھ اکیڈمیاں کالج کے آس پاس بھی ہیں۔ آپ کالج کے نظام کو بہتر بنائیں اساتذہ پر چیک رکھا جا سکتا ہے۔ پرنسپل کے پاس اختیار ہے۔ ڈائریکٹرز وزٹ کر سکتے ہیں مگر جو وقت اساتذہ کا کالج کے باہر ہے وہ ان کا حق ہے۔ وہ جہاں چاہیں پڑھائیں۔بات یوں ہے کہ نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرتا ہے۔ آپ ڈاکٹرز کے بارے میں کیا قدغن لگائیں گے وہ تو سرکاری ہسپتالوں میں صرف مریض انگیج کرنے آتے ہیں۔ اصل کاروبار ان کے کلینک پر ہوتا ہے یا پرائیویٹ ہسپتالوں میں۔ ویسے بھی دوسرے سرکاری ملازم بھی دفتر کے بعد کوئی دوسرا کام کرتے ہیں۔ فی زمانہ ایک نوکری سے گھر کا نظام نہیں چلتا۔ اگر چل بھی رہا ہو تو سٹیٹس کا مسئلہ آن پڑتا ہے۔ ایک بیورو کریٹ جو بظاہر اساتذہ کی طرح سترویں یا اٹھارہویں گریڈ کا ہوتا ہے مگر فرق آپ سب جانتے ہیں۔ ایک احساس محرومی استاد میں ہوتا ہے جسے پورا کرنے کے لئے اسے بھی نئی گاڑی اور کوٹھی چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت غلط کر رہی ہے۔ وہ اس کے لئے حکمت عملی تیار کرے کہ کالجز میں اساتذہ اور طلباء کو ترغیب دے۔ ایک سوال اپنی جگہ یقینا ہے کہ بچے پرائیویٹ کالجز اور پرائیویٹ اکیڈمیز میں کیوں جاتے ہیں۔ جواب بھی ظاہر ہے کہ سرکاری اداروں میں انہیں وہ کچھ نہیں ملتا کہ وہ اکیڈمیوں کے بغیر امتحان میں اعلیٰ نمبر لے سکیں۔ بچوں کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ اکیڈمی میں کورس پورا کر لیں گے دو جگہ پڑھنا بچے کے بس کی بات بھی نہیں۔ اساتذہ کو بھی اضافی بونس دیا جائے اور سرکاری اداروں میں پرائیویٹ والی سہولیات فراہم کی جائیں تو کوئی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ حکومت تو پہلے ہی تعلیم سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ پچھلی حکومتوں نے کئی ادارے BOGکے تحت پرائیویٹ کرنے کی کوشش کی۔ اس سے مگر یہ ہوتا ہے کہ فیسیں زیادہ ہو جاتی ہیں جس سے غریب بچے متاثر ہوتے ہیں اصل بات یہ کہ تعلیم کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح نہیں رہی۔ اب عمران خاں نے اعلان کیا ہے کہ وہ تعلیم کو اولین ترجیحات میں رکھیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کالجز میں تعلیم کے حصول کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ بات ان کی درست ہے کہ جب ایک ادارہ کام کرنے والوں کو ایک معقول تنخواہ دے رہا ہے تو وہ کوئی مطالبہ بھی رکھ سکتا ہے کہ اس کے ملازم کسی اور ادارے میں کام نہیں کریں گے اس حوالے سے طلباء کی حاضری کو بھی لازمی بنانا پڑے گا اگر اساتذہ اور طلبا کالج کے اوقات کار کو درست استعمال کریں تو پھر اکیڈمی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ویسے اداروں میں اکثریت ذمہ دار ہوتی ہے چند کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں جو دوسروں کو بھی بدنام کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے کالج میں ایک پروفیسر تھے جنہیں پرنسپل نے کئی مرتبہ وارننگ دی مگر وہ کلاس نہیں لیتے تھے۔ ایک دن پرنسپل نے انہیں کہا کہ ان کی برداشت جواب دے چکی ہے لہٰذا وہ اس کی سیکرٹری کو رپورٹ کر رہے ہیں کہ اسے کہیں اور بھیج دیا جائے۔ وہ استاد صاحب بڑے آرام سے بولے سر جہاں مرضی بھیج دیں‘ ہم نے تو پڑھانا ہی ہے‘ اگر سختی ہو اور سفارشات کا خاتمہ ہو جائے تو پرنسپل کے لئے ایسے اساتذہ کو سیدھا کرنا چنداں مشکل نہیں۔ اگر ذمہ داری نبھانے کے بعد اساتذہ اپنے وقت کو استعمال کرتے ہیں تو انہیں اس کا پورا حق ہے۔ مجھے یاد آیا ہمارے ایک پروفیسر اکثر اپنا گھر بدلتے تھے۔ پتہ چلا کہ وہ ٹیوشن ورک کرتے ہیں اور نتائج آنے سے پہلے پہلے وہ اپنا مکان بدل کر کسی اور علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ مزہ تو تب ہے کہ حکومت سرکاری تعلیمی اداروں کو آراستہ کرے اور انہیں اتنی مدد بہم پہنچائے کہ وہ پرائیویٹ کالجز کا مقابلہ کر سکیں۔ انہوں نے تو سرکاری اداروں سے بی اے تک ختم کر دیا اور پرائیویٹ اداروں کو موقع دیا کہ آگے بڑھیں۔ مادہ پرستی کے اس دور میں استاد اور شاگرد کا وہ رشتہ بھی ختم ہو گیا ہے جو ایک فضا پیدا کرتا تھا استاد شاگروں کے نام اور رول نمبر تک بولتے تھے۔ کلاس کے باہر بھی ایک رابطہ استوار رہتا تھا۔ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی تھی اب وہ سب کچھ ناپید ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم یونیورسٹی کے دور میں بھی اپنے اساتذہ کے ساتھ رابطے میں رہتے۔ میں تو اپنے استاد پروفیسر افتخار احمد کے ساتھ اولڈ کیمپس سے برٹش کونسل پیدل جاتا اور راستے میں غیر محسوس طریقے سے تحصیل علم جاری رہتا حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اگر اچھا کام اچھے طریقے سے ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ اساتذہ کی عزت نفس بھی برقرار رہے طلبا کا بھی نقصان نہ ہو۔ اگر اس کام کو احسن طریقے سے نہ کیا گیا تو احتجاج سے مزید مسائل پیدا ہونگے اس کے لئے باقاعدہ ایک مکالمہ ہونا چاہیے جس میں اساتذہ کو بھی نمائندگی دی جائے۔ دو اشعار کے ساتھ اجازت: واسطہ یوں رہا سرابوں سے آنکھ نکلی نہیں عذابوں سے خوں جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے