رَمزے بارعُود ایک مشہور مشرق وسطیٰ کے امور پر لکھنے والے ایک مشہور لکھاری اور فلسطین کرونیکل نامی فلاحی تنظیم کے بانی ہیں۔ پیر کی رات سوشل میڈیا پر ان کے اکائونٹ پر مظلوم فلسطین سے متعلق پھر سے ایک رونگھٹے کھڑی کرنے والی خبر پڑھنے کو ملی۔مبینہ خبر کے لنک کو کلک کرتے ہی بیچ میں ایک ویڈیو بھی نظرآئی ۔تین چار منٹ پر مشتمل اس ویڈیو میں اسرائیلی افواج کے مظالم کی انتہا دیکھ کر میرے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوئے۔ان سوالات کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے بربریت کی اس داستان پر بات کرتے ہیں جس کی گواہی یہ ویڈیو کلپ دے رہی تھی۔ویڈیو میں خونخوار اسرائیلی فوج کا ایک فوجی بلڈوزر دیکھا جا سکتا ہے جو غزہ کی پٹی کے سرسبز علاقے میں بپھرے ہوئے ہاتھی کی مانند ایک فلسطینی نوجوان مزاحمت کار کو پہلے اپنے بلیڈ سے کچل کر شہید کر دیتا ہے اور پھر بلیڈ کے ذریعے اس کی بے جاں لاش کو اوپر بلند کرکے لہراتاہے ۔ یہ لاش ایک ستائیس سالہ نوخیزفلسطینی مزاحمت کار محمد النعیم کی تھی ۔ستائیس سالہ نعیم محض تیرہ سال کاایک نابالغ لڑکا تھا جب اس نے اسرائیلی بربریت کو للکارنے کیلئے کَمر کس لی۔چودہ سال کی طویل مزاحمت کے بعد آخر انہوں نے موت کو گلے لگا کر ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئے۔غزہ کی مقبوضہ پٹی میں اسرائیلی بلڈوزر کے بھاری بلیڈ پر جھومنے والا محمد النعیم نے بزبان ِ حال دو پیغامات چھوڑ دیئے۔ ان کا پہلا پیغام اسرائیلی درندوں کیلئے تھا جبکہ دوسرا عرب حکمرانوں کے لئے تھا ۔فوجی بلڈوزر کے بلیڈ سے بے جاں نعیم نے اسرائیل کو یہ پیغام دیا کہ تم خواہ فلسطینیوں کے اوپر لاکھ ظلم کے پہاڑ توڑو اور انسانیت سوز سلوک کی انتہا کریں لیکن فلسطینیوں نے فرعونوں سے ستربرس پہلے سمجھوتہ کیا تھااور نہ ہی اس کے بعدیہ اپنی ماں کی چادر اور حرمت پر سمجھوتہ کریں گے۔نعیم کی لٹکتی ہوئی بے جان لاش اسرائیلیوں سے مخاطب تھی اور کہہ رہی تھی کہ ’’خواہ تم لاکھ ترقی کی بلندیوں پر پہنچ جائو اور فزکس، کمیسٹری، ادب اور امن کے نوبل انعامات کے ہزاروں ٹیکے اپنی پیشانیوں پر سجا لو لیکن سچی بات یہ ہے کہ تم انسانیت سے کوسوں دور اور ادب سے یکسر عاری لوگ ہو‘‘- نعیم کی لاش پھر عربوں کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور سب سے پہلے علامہ محمد اقبال مرحوم ؒکی مشہورنظم ’’جواب شکوہ ‘‘کا یہ مصرع اُن کے گوش گزار کرتی ہے، تھے تو وہ تمہارے آبا مگر تم کیا ہو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو ، نعیم کی لاش عربوں باالخصوص عرب حکمرانوں کو شرم دلواتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’ مٹھی بھر اسرائیلی درندوں کے سامنے ڈھیر ہونے والو ! ہمارے اوپر ظلم کرنے والوں کا ڈٹ کرمقابلہ اگر تم سے نہیں ہوپارہا،لیکن ان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا تقاضا تم سے کونسا دین اورکونسی شریعت کررہی ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ نعیم کی بے روح لاش نے بعد میں اپنے ساتھ پشتو زبان کے یہ اشعار بھی گنگنائے ہونگے ، تور عربیان سہ معنیٰ اور سپین عربیان سہ معنیٰ؟ وخوڑ سرو لیوانو فلسطین ، عربیان سہ معنیٰ ؟ گل غزہ د اور پہ سیند کی لامبی دوئی خبر ھم نا مست پہ سرو شرابو دا بے دین عربیان سہ معنیٰ؟ ( کالے اور گورے چٹے عرب آخر کس مرض کی دوا ہے جب فلسطین کو خونخوار بھیڑیوں نے نوچ نوچ کر رکھ دیاہے۔ پھول جیسا غزہ آج آگ کے دریا میں ڈبکیاں لے رہاہے جبکہ دوسری طر ف مے کی مزے اڑانے والے یہ لوگ چہ معنی دارد؟ ) ستائیس سالہ بہادرنعیم تیس مارچ دوہزار اٹھارہ میں گریٹ مارچ آف ریٹرن ‘‘ کے نام سے لاکھوں فلسطینیوں کا پرامن مارچ کا حصہ تھے جو اسرائیلی جارحیت کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ ثابت ہوا۔یاد رہے کہ اُس مارچ کے پہلے سال میں تین سو کے قریب فلسطینی نوجوان شہید ، ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے تھے اور بے شمار لوگوں نے اپنے جسم کے اعضا کھودیئے تھے ۔ امریکہ کی پشت پناہی سے لطف اندوز ہونے والاہٹ دھرم اسرائیل اگرچہ اس خطے میں امن اور سلامتی کا دعویدار ہے لیکن حقیقت میں یہ امن کے نام پر تشدد اور بدامنی پر یقین رکھنے والی قوم ہے ۔ امن چاہنے والے کبھی بھی لوگوں کا محاصرہ نہیں چاہتے ۔ امن کے علم بردار پھول جیسے ننھے بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑاتے ہیں اور نہ ہی کسی کے مکانات کو صفحہ ہستی سے مٹاتے ہیں۔فلسطین اورشام انبیاء کی مبارک سرزمین ہے اور اس مبارک سرزمین کے اوپر مغرب نے ایک ایسے شجر خبیثہ کی داغ بیل ڈالی ہے جو امریکی سامراج کے پانیوں سے پروان چڑھ رہی ہے ۔اسرائیل اب صرف فلسطین کو کھا چکاہے لیکن اگر اس کے چاروں طرف درجن بھر عرب مملکتوں کے حکمرانوں کا رویہ اسی طرح شرمناک رہاتوخاکم بدہن وہ دن دور نہیں جب شرق اوسط کا پورا خطہ اسرائیلستان کہلایا جائے گا اور اس کے حاکم مٹھی بھر یہودی ہونگے۔