گذشتہ تین چار صدیوں سے ایک معاشرتی و سیاسی علمی ذخیرہ (Body of Knowledge) تخلیق کیا گیا ہے، جس کا اہم حصہ معاشی نظام بھی ہے۔ اس علمی ذخیرے میں دنیا کی معیشت کی عمومی سادگی کو ایک گورکھ دھندے کی صورت میں ایک معاشی سائنس کے نامی علم کے طور پر ایجاد کیا گیا۔ ان جدید علوم کی تمام تر بنیاد سیکولر خیالات پر رکھی گئی اور مذہب کے عطا کئے گئے علم کو ایک جبری قول (Dogma) کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ مذہب انسان کی سوچ کو محدود کرتا ہے اور اسے آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسی طرح کے علم کو پڑھایا جانے لگا اور ایسے ہی علم کے اربابِ تخلیق کو حرفِ آخر بلکہ ’’حرفِ کل‘‘ سمجھا جانے لگا۔ پولیٹیکل سائنس، سوشیالوجی، اکنامکس اور پھر ان کے ذیلی مضامین۔ ان تمام مضامین کو سیکولر رنگ دینے اور اپنی مرضی کے مطابق مرتب کرنے کے لئے ایک متعصب اور جھوٹی تاریخ بھی مرتب کی گئی۔ اس بددیانت تاریخ کا خلاصہ یہ تھا کہ دنیا کی تاریخ میں ترقی کا سرچشمہ دراصل یونان تھا، جس کے تمام فلسفی جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ساڑھے تین سو سال پہلے تک دنیا پر چھائے ہوئے تھے، انہوں نے سب سے پہلے فلسفہ، اُصولِ حکمرانی، طرزِ معیشت، طب اور دیگر تمام علوم میں دنیا کی رہنمائی کی تھی۔ لیکن ان کے جانے کے بعد ایک تہذیبی زوال کا دور شروع ہو گیا اور دنیا معاشی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ایک طویل تاریکی میں ڈوب گئی۔ اس عرصے کو وہ ’’تاریک ادوار‘‘ (Dark Ages) کہتے ہیں جو پانچویں صدی عیسوی سے پندرھویں صدی عیسوی یا بعض کے نزدیک گیارہویں صدی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ اصطلاح روم کے مشہور دانشور فرانسسکو پٹرارکا (Francesco Petrarca) نے تخلیق کی جسے عرفِ عام میں پیٹراک (Petrach) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ شخص یورپ میں تحریکِ احیائے علوم (Renaissance) کے دور کا شاعر، اور فلسفی تھا جو 1374ء میں فوت ہوا۔ اس کے بعد ہر آنے والے مؤرخ نے اسی کے دیئے ہوئے اس تصور کی جگالی کی۔ یہاں تک کہ تازہ ترین فلاسفر اور مؤرخ ول ڈیورانٹ (Will Durant) نے اپنی گیارہ جلدوں پر مشتمل کتاب ’’تہذیب کی کہانی‘‘(The Story of Civilization) تحریر کی تو اس نے بھی ان سات صدیوں کا ذکر ایک چھوٹی سی جلد میں کیا، اور اس کا بھی نام بھی مسلمانوں یا اسلام کے حوالے سے نہیں رکھا، بلکہ اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’ہمارا شاندار مشرق‘‘ (Our glorious East) کا نام دیا۔ ول ڈیورانٹ کی یہ تاریخ 1935ء میں چھپنا شروع ہوئی اور 1975ء میں اس کی آخری جلد چھپی، یعنی انتہائی جدید تاریخ ہے۔ امریکہ اور یورپ کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والا طالب علم اسی ’’متعصب‘‘ علم کی بنیاد پر یہ یقین رکھتا ہے کہ دنیا تاریخی طور پر علم و آگہی کے اعتبار سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد پانچ سو سال تو مہذب اور روشن رہی، لیکن پھر اس کے بعد کم از کم سات سو سال اور زیادہ سے زیادہ دس سو سال تک تاریکی میں ڈوبی رہی۔ اس کے بعد یورپ نے اسے آ کر تاریکی سے نکالا اور تہذیب کی روشنی دکھائی۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دورِ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش (571ئ) سے لے کر مسلمانوں کے تہذیبی عروج کا زمانہ تھا، اور مغربی مصنّفین نے اس کا ذکر تاریک دور سے ہی کرنا تھا۔ تاریخی بددیانتی کا یہی اثر معیشت کے ماہرین پر بھی ہوا اور انہوں نے بھی ایسی لاتعداد کتابیں تحریر کیں جس میں لکھا گیا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے بعد کی پانچ صدیوں تک دنیا میں معاشی علم اور تجزیہ موجود تھا۔ لیکن اس کے بعد کی سات صدیاں یوں لگتا ہے جیسے کسی واضح معاشی نظام کے تابع نہیں تھیں، اسی لئے کوئی معاشی ماہر یا تجزیہ کرنے والا نظر نہیں آتا۔ معیشت دان اس عرصے کو بہت بڑا خلا (Great Gap) قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس عرصے میں کبھی بھی معیشت یا معاشی نظام کو ایک علم کے طور پر دیکھا گیا اور نہ ہی پڑھا یا پڑھایا گیا۔ یعنی معاشی تجزیہ (Economic Analysis) نام کی چڑیا ان سات سو سال کے عرصے میں موجود ہی نہیں تھی۔ اس ’’متعصب تصور‘‘ کو جدید دور کے ایک بہت بڑے سیاسی معیشت دان (Political Economist) جوزف ایلوز شوم پیٹر (Joseph Alois Schumpeter) نے کئی جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ’’معاشی تجزیے کی تاریخ‘‘ (History of Economic Analysis) میں اپنے مخصوص دلائل کے ساتھ اکٹھا کیا ہے۔ یہ شخص مشہور معیشت دان ’’کینز‘‘ کا ہم عصر تھا۔ یہ 1919ء میں تھوڑے عرصے کے لئے جرمن آسٹریا حکومت میں وزیر خزانہ رہا اور پھر اپنی مخصوص مذہبی بیک گرائونڈ کی وجہ سے 1932ء میں امریکہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوا اور وہاں ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر لگ گیا۔ اس نے معاشی تجزیہ کاری کی ایک طویل تاریخ مرتب کی مگر اس نے ویسی ہی بددیانتی کی جو دیگر موضوعات پر تاریخ لکھنے والے مغربی تاریخ دانوں نے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی۔ اس نے لکھا ہے کہ معیشت، اس کے نظام ہائے کار اور ان کے تجزیہ کا آغاز یونانی فلسفیوں کے دور میں شروع ہوا اور پھر ان کے بعد دوبارہ کوئی عالم، مفکر یا معاشی ماہر ایسا پیدا نہ ہوا جو اس معاشی تجزیے کی سائنس کا احیاء کر سکے۔ یہاں تک کہ یورپ سے ہی اس علم کا دوبارہ آغاز سینٹ تھامس ایکوانس (St. Thomas Aquinas) نے کیا۔ یہ شخص یورپ کی تحریکِ احیائے علوم کے ابتدائی ایاّم میں پیدا ہونے والا ایک پادری تھا جو فلسفہ اور سیاسیات وغیرہ پر کتابیں تحریر کرتا تھا۔ اس کی شہرت اس کی تھیوری ’’فطری مذہبیت‘‘ (natural Theology) کی وجہ سے ہے، جس کے تحت اس نے پہلی دفعہ عیسائیت کے بارے میں یہ تصور دیا کہ خدا دراصل عقیدے کی بات نہیں ہے بلکہ عقل کی بھی تخلیق ہونا چاہئے۔ یہیں سے یورپ میں عقلیت پرستی کا آغاز ہوا اور الحاد تک بات جا پہنچی۔ اس شخص کی تحریروں میں کہیں کہیں معیشت پر بھی گفتگو مل جاتی ہے جس کی بنیاد پر اسے یونان کے فلسفیوں کے پندرہ سو سال بعد پیدا ہونے والا پہلا معاشی تجزیہ نگار قرار دیا گیا اور درمیان کے عرصے کو معاشی علم کے اعتبار سے ’’تاریک دور‘‘ قرار دے دیا گیا۔ حالانکہ اس سارے عرصے میں اسلامی معیشت، اسلامی معاشی نظام اور اسلامی مانیٹری پالیسی کے حوالے سے مسلمان فقہا، مفکرین اور دانشوروں نے بہترین کام کیا، جبکہ یورپ میں اس وقت اس علم سے آگاہی تک نہ تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ایک سو سال بعد پیدا ہونے والے امام ابو یوسف کی تصنیف ’’کتاب الخراج‘‘ نہ صرف یہ کہ معاشی اور مالیاتی نظام کے اُصول بتاتی ہے بلکہ معاشی قوانین بھی اس میں ترتیب دیئے گئے ہیں۔ ان کے بعد الفارابی (873-950)، ابنِ سینا (980-1037)، الغزالی (1058-1111)، ابن تیمیہ (1263-1328) اور ابنِ خلدون (1364-1342) جیسے لاتعداد اہلِ علم کی ایک لڑی ہے جنہوں نے اپنی کتابوں میں باقاعدہ اسلامی معیشت پر نہ صرف مضمون باندھے بلکہ اس کے بارے میں تفصیلاً لکھا۔ اہم بات یہ ہے ان تمام مسلمان مفکرین نے یونانی علوم کے معاشی حصوں پر بھی باقاعدہ سیر حاصل تبصرہ کرتے ہوئے اس کے مقابلے میں اسلامی نظامِ معیشت کو نہ صرف پیش کیا بلکہ یہ تک بتایا کہ یونانی مفکرین کے اُصولِ معیشت تو صرف خلائی باتیں ہیں جبکہ اسلامی اُصولِ معیشت تو اس وقت آدھی دنیا پر نافذ ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ اسلام ہی دنیا کو پہلا معاشی نظام عطا کرنے والا دین ہے۔ (ختم شد)