کیمونسٹ نظریے کے زوال سے پہلے پسماندہ ممالک کے جدید پڑھے لکھے افراد عموماً معیشت میں ہی ’’دخل در معقولات‘‘ کیا کرتے تھے۔ انہیں مارکسی فلسفہ اور معاشی نظام بہت پسند تھا اور وہ اس نظام کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں انسانی دُکھوں کا مداوا سمجھتے تھے۔ پاکستان میں یہ ’’سرخے‘‘ کہلاتے، لیکن یہاں ان کا ہدف مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام نہیں، بلکہ اسلام اور اس کا معاشی نظام ہوتا۔ وہ اس دور میں ایک ہی سوال کیا کرتے، ’’کیا اسلام کا کوئی معاشی نظام ہے‘‘، اگر ہے تو جدید دور کے مسائل کا اس کے پاس کوئی حل بھی موجود ہے اور اس معاشی نظام کے ماہرین کون ہیں/کہاں ہیں؟مارکسزم دفن ہو گیا، لینن گراڈ واپس سینٹ پیٹرز برگ کہلانے لگا، اور اس کے ماننے والے جو کبھی امریکہ کو لعنت ملامت کیا کرتے تھے اب اسی سرمایہ دارانہ نظام کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کایا کلپ کے باوجود ان کی اسلام سے دُشمنی بدلی اور نہ ہی ان کا یہ سوال کہ ’’کیا اسلام کا کوئی معاشی نظام ہے اور اگر ہے تو اس معاشی نظام کے ماہرین کہاں ہیں؟ یوں تو اس سوال کا جواب ہر دور میں دیا جاتا رہا ہے، لیکن گذشتہ چند سال خصوصاً 2008ء کے معاشی بحران کے بعد تو دنیا بھر کے معاشی مفکرین، اسلامی معاشی نظام کی جانب سوچنے پر ایسے مجبور ہوئے کہ انہوں نے اسلامی معاشی نظام سے متعلق ذہنوں پر چھائی صدیوں کی جہالت کا پردہ پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ پھر بھی میرے ایک دوست کالم نگار کے کالم نگار بیٹے نے اپنے کالم میں طنزاً یہ فقرہ تحریر کیا ہے کہ ’’سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کیا ہو گی۔ یہ اسلام کا نہیں معیشت کا سوال ہے، اس کا جواب مولانا مودودیؒ نہیں جان مینارڈکینز نے دینا ہے‘‘۔ میرے دوست کو یقیناً اندازہ ہو گا کہ جان مینارڈ کینز کو مرے ہوئے چھہتر (76) سال بیت گئے اور آج کی جدید مانیٹری پالیسی جس کا وہ تذکرہ فرما رہے ہیں اس کی تشکیل کا کینز کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج کی معاشی دنیا امریکی شہر بریٹن ووڈز (Bretton Woods) میں 44 ملکوں کے 730 ماہرین کے قائم کردہ عالمی مالیاتی یا ’’مانیٹری‘‘ نظام کی پیداوار ہے، جس کا تعلق معاشیات کے نفسِ مضمون سے نہیں بلکہ دنیا کو معاشی طور پر غلام بنانے کے لئے ایک سسٹم کو زبردستی لاگو کرنے سے ہے۔ یہ عالمی طاقتیں کبھی بھی ایسا عالمی مالیاتی نظام قائم کرنے کے قابل نہ ہوتیں اگر انہیں دوسری جنگِ عظیم میں فتح نصیب نہ ہوتی۔ جیسے ہی نارمنڈی فتح ہوا تو اس کے فوراً بعد بریٹن ووڈز کانفرنس طلب کی گئی، جس کی کوکھ سے عالمی مالیاتی نظام اور اس کے نفاذ کے دو اہم ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بینک وجود میں آئے۔ ان دونوں اداروں کا مقصد دراصل دنیا کی تمام معیشتوں کو کنٹرول کرنا تھا، یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پہلے دو مقاصد یہ رکھے گئے۔ (1) عالمی مالیاتی اشتراک کے لئے کام کرنا اور (2) دنیا میں معاشی استحکام قائم کرنا۔ اسی مالیاتی نظام کے تحت ہی سب سے پہلے دنیا کے تمام ممالک کو مجبور کیا گیا، کہ وہ ایک مصنوعی، جعلی کاغذی کرنسی کا نظام اختیار کریں جس کے لئے ہر ملک کا ایک سنٹرل بینک ہونا چاہئے جو اس جعلی کاغذی کرنسی کو چھاپنے کا اہتمام کرے۔ اس ’’جبری نفاذ‘‘ سے پہلے دنیا بھر کی معیشتیں ہمیشہ اس چیز کو کرنسی مانتی تھیں جس کے اندر اس کی ازخود قیمت موجود ہو (intrinsic value of its own)۔ یعنی اگر اسے بازار میں جا کر بیچا جائے تو کسی بھی قسم کی گارنٹی کے بغیر اس کی قیمت مل جائے، جیسے سونا اور چاندی وغیرہ۔ لیکن اگر کاغذ کے نوٹوں کو بغیر کسی گارنٹی کے بیچا جائے تو ردّی کے بھائو بھی نہیں بکیں گے۔ یوں کاغذی کرنسی کے نفاذ سے اس عالمی دھوکہ دہی، فراڈ اور جعلی مالیاتی نظام کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے اگر کوئی کاغذی کرنسی نما چیز موجود تھی بھی تو اس کی حیثیت صرف ایک ’’معاہداتی دستاویز ‘‘ (Promissory note) سے زیادہ نہ تھی۔ آغاز میں یہ کلیہ بنایا گیا کہ ان کاغذ کے جعلی نوٹوں کے بدلے تمام ملک اپنے پاس سونے کا ذخیرہ رکھیں جسے "Gold Standard" کہا گیا۔ لیکن صرف 18 سال کے بعد 1973ء میں جب فرانس کے صدر نے امریکی صدر سے یہ مطالبہ کیا کہ فرانس کے دو ارب ڈالر امریکی بینکوں میں موجود ہیں، ان کے بدلے اسے سونا چاہئے تو ساری عالمی ’’مانیٹری پالیسی‘‘ کا فراڈ سامنے آ گیا، کیونکہ امریکہ کے پاس تو اتنا سونا موجود ہی نہیں تھا جتنے اس نے ڈالر چھاپ رکھے تھے۔ اس نے صاف انکار کر دیا اور دنیا کو ایک اور جعلی تصور دیا گیا جس کا نام "Goodwill of a Country" یعنی کسی ملک کی ’’معاشی حیثیت‘‘ رکھا گیا۔ اب اس حیثیت کا اندازہ کون لگائے۔ اس کے لئے ایک عالمی بینک پہلے سے موجود تھا جس کا نام تھا "Bank of International Settlements" اس بینک کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ ہر ملک کی کرنسی کی حیثیت (Value) کا تعین کرے۔ اس بینک کی کارگزاری ملاحظہ ہو۔ نائیجیریا ایک ایسا ملک ہے، جس کے پاس سعودی عرب سے بھی زیادہ تیل ہے، لیکن اس کی کرنسی کمزور ہے، جبکہ آئس لینڈ جہاں گھاس بھی نہیں اُگتی اس کی کرنسی مضبوط ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ سونا افریقہ میں پیدا ہوتا ہے لیکن عالمی ’’گولڈ سٹینڈرڈ‘‘ امریکہ اور یورپ کے پاس ہے۔ یہ ہے طاقت کے بل بوتے پر معیشتوں پر قبضہ۔ اسی سال 1973ء میں اس جعلی کاغذی کرنسی کو سونے کے بجائے پٹرول سے ’’قیمت‘‘ (Value) دینے کی کوشش کی گئی۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے کہا گیا کہ وہ اپنا تیل صرف ڈالروں میں بیچیں گے۔ یعنی اگر پاکستان، ملائیشیا، فرانس یا دیگر ممالک نے تیل خریدنا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی مصنوعات وغیرہ بیچ کر امریکی ڈالر خریدیں گے اور پھر ان ڈالروں سے تیل خریدیں گے جو اصل میں عربوں اور افریقیوں کی ملکیت ہے۔ یوں تیل صرف ڈالروں میں خریدا جانے لگا اس لئے ڈالر ہی سٹینڈرڈ بن گیا اور اس کے مقابلے باقی تمام کرنسیاں ذلیل و رُسوا۔ یہی ڈالر ہے جو محض بہترین پرنٹنگ والے ایک کاغذ کے سوا کچھ نہیں۔ آج اگر یہ اعلان ہو جائے کہ تیل صرف پاکستانی روپوں میں خریدا جائے گا، تو دنیا میں ایک روپے کے سو ڈالر مارکیٹ میں ملنے لگیں۔ اس ساری مانیٹری پالیسی کا نہ معیشت سے کوئی تعلق ہے اور نہ مولانا مودودیؒ اور کینز سے۔ اس عالمی مانیٹری پالیسی سے نہ کسی ملک کی پیداوار میں اضافہ ہوتا اور نہ ہی معیشت کی درستگی کی جاتی ہے۔ یہ تو ایک طاقتور قوت کا زبردستی نافذ کیا گیا فراڈ ہے۔ مگر اس فراڈ کو علمی سطح پر جائز قرار دینے کے لئے دنیا کی یونیورسٹیوں میں ایک معاشی علم تخلیق کیا گیا ہے جسے جدید معاشی و مالیاتی سائنس کہتے ہیں۔ اگر دنیا سے کاغذی جعلی کرنسی کا وجود ختم ہو جائے تو اس معاشی سائنس کے لاتعداد مضامین ناکارہ ہو جائیں۔ مثلاً پاکستان کے سونے کے سکے اور فرانس، برطانیہ اور امریکہ کے سونے کے سکے میں رتی برابر بھی فرق نہیں ہو گا۔ یہ سب ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر کام کریں گے اور یوں جدید معاشیات کا وہ علم جو شرح تبادلہ (Exchange Rate) سے تعلق رکھتا ہے بالکل بے کار ہو جائے گا۔ اس طرح کاغذی نوٹ چھاپ کر جو افراطِ زر پیدا کی جاتی ہے اس کا مضمون بھی نصاب سے خارج کرنا پڑے گا۔ اس عالمی مالیاتی سودی نظام کا کوئی تعلق معاشی سائنس سے ہے اور نہ معاشی تجزیئے سے، بلکہ عالمی طاقتوں کی قوتِ نافذہ سے ہے۔ اگر اس کا کوئی تعلق معاشی ترقی سے ہوتا تو جاپان مدتوں عالمی معیشت پر چھایا رہا، لیکن اس بیچارے کو تو سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست بھی نہیں دی گئی۔ (جاری ہے)