مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی محبت ایک بار پھر زندہ ہو رہی ہے۔مشترکہ ایجنڈے کی خاطر دونوں ایک بار پھر شیرو شکر ہونے کو ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مخمصہ وہی ہے جو مسلم لیگ (ن) کے اندر لوگوں کا ہے کہ اصل کس کا حکم ہے میاں شہباز شریف یا پھر قائد اول میاں نواز شریف۔اسکی آگے مزید شاخیں نکل چکی ہیں جس میں خواجہ آصف گروپ، شاہد خاقان گروپ جنکے بارے میں شہباز شریف اور مریم نواز کی بالترتیب مدد حاصل ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ شاخیں اسی تواتر سے نکلتی رہیں تو بہت سے پھل پھول بھی نکل آئیں گے۔ یہ پھل پھول اپنی خوشبو کہاں جا کر پھیلائیں گے اس قسم کے واقعات سے ہماری سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے۔پیٹریاٹ کی صورت میں جو گلدستہ جنرل مشرف کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اس نے مسلم لیگ (ق) ،( ایک اور پھولوں سے لدی جماعت)، کی حکومت کو پانچ سال برقرار رکھنے میں مدد کی۔اس طرح سے ہمارے ملک میں اصولی سیاست کا بول بالا ہوتا رہا۔پیارے دوست ایاز خان صاحب اصولی سیاست کے حوالے سے اکثر کہا کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اصول پر سمجھوتا نہیں کیا اور انکا اصول یہ ہے کہ انکا کوئی اصول نہیں۔ اعتزاز احسن چیخ چیخ کر عرصہ دراز سے اپنی قیادت کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میاںبرادران سے اجتناب کریں ان پر بھروسہ کرنے کا مطلب اپنی کشتی ڈبونا ہے کیونکہ انکی فطرت ہے جس کشتی میں بیٹھتے ہیں اس میں سوراخ کرتے ہیں۔دلیل کے طور پر وہ شریف خاندان کا اپنے بہن بھائیوں سے رویہ سے لیکر سیاست میں محترمہ بینظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کے حوالے سے 1988 کے انتخابات میں پاکستان کی تاریخ کی گھٹیا ترین تصویری مہم کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ویسٹرن تربیت یافتہ بلاو ل بھٹو زرداری بھی اگر ان تصاویر کو دیکھ لیں تو شاید کبھی شریف خاندان سے کسی قسم کا تعلق رکھنے کا نہ سوچیں۔یہ مہم اس بات کی غماز ہے کہ ایک تو شریف خاندان اپنے سیاسی فائدے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے کس قدر نفرت کرتے تھے اور کسی کو شک ہے یہ نفرت ختم ہو گئی ہے تو یہ اسکی خام خیالی ہے۔اتفاق فائوندڑی کے قومیائے جانے سے شروع ہونے والی نفرت کو جنرل ضیاء نے فائونڈری واپس کر کے جلا بخشی اور اس نفرت کو اس وقت کی فوجی حکومت نے شریف خاندان پر نوازشات کی بارش کر کے انکی نسلوں کے خون میں شامل کر دیا ہے۔ آصف زردار ی تو اس سارے کھیل کو دیکھ چکے ہیں۔ اس گھٹیا مہم سے لیکر انکی ایک دہائی تک پابند سلاسل زندگی کا کوئی لمحہ وہ کیسے بھول سکتے ہیں۔لیکن گاہے بگاہے وہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے بہت سے سمجھوتے کرتے رہے جس میں اس گھٹیا ترین تصویری مہم کے مبینہ مرکزی کردار حسین حقانی کو گلے لگانا بھی شامل ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد میمو گیٹ میں میاں نواز شریف کا سپریم کورٹ میں کالا کوٹ پہن کر جانا بھی انہیں نہیں بھولا ہوگا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ساتھ شریف برادران نے دھوکہ کیا۔خیر شریف خاندان کی اپنے محسنوں کے ساتھ دھوکہ کرنے کی تاریخ جنرل جیلانی سے شروع ہو کر جاوید ہاشمی تک زندہ ہے اور اسکے ابھی بہت سے باب انہوں نے اور لکھنے ہیں۔ میں اس بات کو ماننے کو تیار ہوں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن انسان کی غیرت و حمیت ہی وہ چیز ہے جو اسکو کسی بڑے مشن کے قابل بناتی ہے۔اگر یہ انسان کے اندر موجود نہیں تو پھر وہ اپنی ذات کے لئے تو بہت کچھ کرنے کو تیار ہو گا لیکن اپنی، اپنے خاندان اور وطن کی عزت کی خاطر اسکا رویہ سوائے خود غرض انسان کے کچھ نہیں ہوگا۔ شریف خاندان اسکا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔جبکہ آصف علی زرداری اس راہ پر چلنے کی کوشش میں لگے رہے لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہو کر بہت دور تک نہیں چل پائے۔اب انکے لخت جگر آزمائے ہوئے بازوئوں پر بھروسہ کرنے نکل پڑے ہیں۔سیاسی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن کچھ نہ کچھ غیرت اور حمیت کا مظاہرہ بحر حال بلاول بھٹو کو کرنا چاہئے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر بلاول بھٹو نے بھی شریف خاندان کے ساتھ گٹھ جوڑ کی راہ اپنائی بھلے کسی بھی مجبوری کے تحت ہو تو انکی پنجاب میں رہی سہی حمایت بھی ختم ہو جائے گی اور وزیر اعظم کیا وہ سندھ کی حکومت کی حد تک بھی قائم نہیں رہ سکیں گے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو سر جوڑ کر وقتی فائدے کی بجائے اپنے مستقبل کی سیاست کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ جتنا نقصان پیپلز پارٹی کو مفاہمت کی سیاست نے پہنچایا ہے اتنا اسکو آصف زرداری کی کرپشن کے حوالے سے ساکھ نے نہیں پہنچایا۔پیپلز پارٹی میں اب بھی بہت جان ہے اور اسکے پاس ایسی قیادت موجود ہے جو اسکو ایک بار پھر پنجاب میں کیا پورے پاکستان میں زندہ کر سکتی ہے اور وہ دور واپس آ سکتا ہے جب پاکستان کے ہر صوبے اور علاقے میں’’چاروں صوبوں کی زنجیر، بینظیر بینظیر‘‘ کے نعرے گونجا کرتے تھے۔ بلاول بھٹو ہوش کے ناخن لیں اور اپنا سیاسی مقام بنانے کے لئے پیپلز پارٹی اور اسکی سیاسی تاریخ سے باہر سہاروں کی تلاش مت کریں۔جس ابتلاء میں وہ اور انکے والد صاحب ہیں اسکا کوئی نہ کوئی انجام ہو جائیگا لیکن اس سے انکی سیاست کو کچھ نقصان ہو سکتا ہے مکمل ختم نہیں ہوگی۔ لیکن اگر وہ شریف خاندان کے دھوکے میں آگئے اور انکی سیاست کے کھیل کا حصہ بنے تو پھر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ انکا سیاسی مستقبل کس قدر تابناک ہو گا۔ اصولی سیاست اگرچہ مشکل کام ہے لیکن کچھ نہ کچھ اصول سیاست میں اب ہمارے سارے سیاستدانوں کو سیکھ ہی لینے چاہئیں۔عوام پر یقین ہے اور انکی حمایت کے دعویدار ہیں تو ان پر بھروسہ کریں۔ ادھر ادھر جھک مارنے سے بہتر ہے ایک دو الیکشن ہار جائیں لیکن اپنی بنیاد پر کھڑے رہیں۔ عمران خان کو بھلے جو مرضی کہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت بھی پاکستان میں اس سے زیادہ پاپولر لیڈر کوئی نہیں۔ اسکی بنیادی وجہ اسکا اپنے سیاسی نعرے کے ساتھ اخلاص سے کھڑے رہنا ہے جو ابھی تک قائم و دائم ہے۔ ٭٭٭٭٭