بات قائد اعظم ؒ کے کردار کی ہے ا وران کے پاکستان کے رہنمائوں کی زبان پر تذکرہ عام ہے۔صاحب کردار، جہد مسلسل،دیانت دار،حوصلہ مند،صاحب حمیت،دوربیں اور راست با زقائد۔ ان کی ایمانداری‘ جرأت‘ کردار اور فراست اور پائے استقلال کی گرد کو پانے والا دور دور تک نہیں ہے۔حسن اے شیخ بتاتے ہیں’’یہ 1946کا ذکر ہے‘ میں ان دنوں مسلم لیگ مزنگ شاخ (لاہور) کے شعبہ نشرو اشاعت سے منسلک تھا۔ قائد اعظم ؒ لاہور تشریف لائے‘ تو میںاپنے دوستوں کو ساتھ لیے اسمبلی ہال پہنچ گیا۔ اگرچہ یہ بے ضابطگی تھی ،تاہم مجھے قائد اعظم کی اس شفقت کا زعم تھا جو وہ نوجوانوں کے ساتھ روا رکھتے تھے۔ قائد اعظم ؒتشریف لائے۔ گاڑی سے اتر کر انہوں نے سیڑھیوں پر قدم رکھا تو ہم اپنی جگہ سے کھسک کر آگے نکل آئے۔راجہ غضنفر علی خان نے ہمیں ٹوکا۔ راجہ صاحب کا استدلال تھا کہ قائد اعظم ؒ کو یہ حرکت ناگوار گزرے گی کیونکہ وہ اس قسم کی بے قاعدگی پسند نہیں کرتے۔ اتنے میں قائد اعظم ؒ چبوترے پر پہنچ چکے تھے۔ اتفاق سے اسی وقت وہ ہماری طرف متوجہ ہو گئے اور راجہ صاحب سے پوچھا ’’کیا مسئلہ ہے‘‘ انہوں نے بوکھلا کرمختصراً ماجرا بیان کیا۔ قائد اعظم ؒ نے میری طرف دیکھا‘ ان کی عقابی نگاہیں دل کو چیرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔اچانک انہوںنے مسکراتے ہوئے کہا ’’First Youngester‘‘(پہلے نوجوان) یہ سن کر ہماری جان میں جان آئی۔ جلدی جلدی ہم نے ان سے مصافحہ کیا اور خوش خوش واپس ہونے لگے۔ اچانک انہوںنے ہمیں روک کر فرمایا ’’Discipline First‘‘ (پہلے نظم و ضبط) اور ہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ جنرل گل حسن گواہی دیتے ہیں:’’میں قائد اعظم ؒ کا اے ڈی۔ سی تھا۔ ایک بار ان کے ایک بھائی ملنے آئے۔ انہوں نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جو میںنے قائد اعظم ؒ کو دیا۔‘‘ قائد اعظم ؒ نے پوچھا ’’یہ کون ہیں؟‘‘ میںنے کہا۔’’آپ کے بھائی ہیں۔‘‘ انہوں نے پوچھا’’انہوںنے پہلے سے وقت لیا تھا؟‘‘ میں نے کہا.... ’’جی نہیں۔‘‘ فرمایا ’’انہیں کہو تشریف لے جائیں۔‘‘ میں دروازے کی طرف مڑا تو قائد اعظم ؒ نے مجھے دوبارہ بلایا‘ کارڈ میرے ہاتھ سے لے کر سرخ پنسل سے اس پر ’’قائد اعظم ؒ‘‘ کا لفظ کاٹا‘ پھر گورنر جنرل آف پاکستان کے بھائی کا لفظ کاٹا اور پھر مجھے کارڈ تھماتے ہوئے بولے ’’ان سے کہو کارڈ پر صرف اپنا نام لکھیں‘ مجھ سے یا گورنر جنرل کے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔‘‘ میںنے باہر جا کر کارڈ ان کے بھائی کو دے دیا۔ وہ چلے گئے اور پھر واپس نہ آئے‘‘دلی میں قائد اعظم ؒ کا گھر سڑک کے عین اوپر تھا۔لیکن اس کا رخ سڑک کی دوسری جانب تھا۔ اس رخ پر گھر کے بالکل سامنے محکمہ پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کے کچھ کوارٹرز تھے۔ محکمے والوں نے ان کے گھر کے سامنے بیت الخلا بناناشروع کر دیے۔ قائد اعظم ؒ کے دوستوں نے ان سے کہا ’’آپ پی۔ ڈبلیو۔ڈی والوں سے بات کریں‘ وہ کبھی آپ کی بات رد نہیں کریں گے۔‘‘ قائد اعظم ؒنے کہا کہ میں ذاتی کام کے لیے کسی سرکاری محکمے کا احسان نہیں اٹھانا چاہتا۔ چند دنوں بعد ایک موقعے پر قائد اعظم ؒ نے اپنا دایاں ہاتھ میز پر گھماتے ہوئے کہا ، I Turned my house like this(میںنے اپنے گھر کا رخ یوں بدل دیا) انہوںنے اپنا گھر گرا کر اس کا رخ تبدیل کر دیا‘ لیکن محکمے والوں سے بات نہ کی۔ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ ’’قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے ایک مسلمان سول افسر سنٹرل انٹیلی جنس میں متعین تھا۔ اس کی دلی ہمدردی پاکستان کے ساتھ تھی۔ ایک روز اتفاقاً ایک فائل اس کے ہاتھ لگی جسے پڑھ کر اسے پتہ چلا کہ ہندو لیڈر در پردہ منصوبے بنا رہے ہیں کہ پاکستان بنتے ہی اسے اپاہج بنا دیا جائے۔ مسلمان افسر نے محسوس کیا کہ اس امر سے قائد اعظم کو آگاہ کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ اس نے یہ فائل چرا لی‘ تین دن کی رخصت لی‘ بھیس بدلا اور بمبئی روانہ ہوگیا۔آدھی رات کو وہ قائدکی کوٹھی پر پہنچا۔ اندر اپنے نام کی چٹ بھجوائی۔ تھوڑی دیر بعد قائد اعظم ؒنے اسے اندر بلا لیا۔ مسلمان افسر نے مختصراً اپنی آمد کی وجہ بیان کی اور پھر فائل سامنے رکھ دی۔ قائد اعظم ؒ نے بڑے اطمینان سے ساری فائل پڑھی پھر بولے۔’’نوجو ان! کیا تم نے پاکستان میں ملازمت کے لیے OPT(خود کو پیش) کیا ہے؟‘‘ پیشتر اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا‘ قائدا عظم ؒ نے کہا ’’میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے افسروں کے لیے قطعاً کوئی جگہ نہیں جو دفتری راز غیر متعلقہ لوگوں پر فاش کریں‘ اب تم جا سکتے ہو۔‘‘ جناب فقیر محمد نے کہا ’’میں قائد اعظم ؒکے پاس ملازم تھا۔ ایک مرتبہ جمعہ کے روز میں نے مس فاطمہ جناح سے کہا‘ مجھے نماز کے لیے چھٹی چاہیے۔ انہوںنے اجازت دے دی۔ اسی وقت بے بی (قائد اعظم ؒ کی بیٹی) اندر سے آئیں اور کہا کہ اسے اپنی سہیلیوں سے ملنے جانا ہے۔ وہ کار کے ساتھ مجھے لے جانا چاہتی ہیں۔ اگرچہ بے بی کی خاطر میں اپنے پروگرام میں ایک آدھ گھنٹے کی ترمیم کے لیے تیار تھا‘ لیکن اسی دوران قائد اعظم ؒ تشریف لے آئے۔ انہوںنے بے بی سے سختی سے کہا ’’فقیر محمد نماز جمعہ پڑھنے جا رہا ہے‘ تم کار پر نہیں جا سکتیں۔ کسی سے کہو‘ تمہارے لیے ٹیکسی لے آئے۔‘‘ مجھے اپنے قائد کے کردار کی کوئی جھلک اپنے اندر یا اپنے رہنمائوں میںنظر نہیں آتی۔۔ !! اللہ کرے کوئی دور آئے جب یہ پاکستان قائدؒ کا پاکستان ہو۔ نہ میں بدلہ نہ وہ بدلے نہ دل کی آرزو بدلی میں کیوں کر اعتبار انقلاب ناتواں کر لوں