معروف شاعر افضل ندیم افضل گزشتہ روز دنوں وفات پا گئے ۔ نماز جنازہ کربلا ڈیرہ غازی خان میں ادا کی گئی ۔ نماز جنازہ میں عمائدین شہر کے علاوہ وسیب کے شعراء کرام نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ افضل ندیم افضل بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے ۔ ان کے ایک درجن کے قریب شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ جبکہ انہوں نے دو درجن کتابیں مرتب کیں ۔ جن میں سینکڑوں شعراء کرام کو انہوںنے متعارف کرایا ۔ ان کا کمال اور خوبی یہ تھی کہ وہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ، ان کے کلام کی اصلاح کرتے اور جونہی ان کا کلام اشاعت کے قابل ہوتا ، کتاب چھپوا دیتے ۔ وہ خود اچھے بک سیلر تھے ، اس حوالے سے ڈی جی خان میں ان کا نام تھا۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے بیسیوں شاگرد اولاد سے بھی ان سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ مرحوم دو بیٹے اور دو بیٹیوں کے باپ تھے ۔ جھوک سرائیکی کو وہ ملتان میں دوسرا گھر سمجھتے تھے ۔ جب بھی آتے ان کا قیام جھوک میں ہوتا ۔ آج وہ ہم میں موجود نہیں تو بہت یاد آ رہے ہیں ۔ ایک مرتبہ میں نے جھوک کیلئے ان کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرا نام افضل الٰہی ہے، میرے ابا جی کا نام چوہدری الٰہی بخش تھا ، جبکہ ہماری ذات راجپوت ہے، ہمارا خاندان تقسیم سے بہت پہلے ڈیرہ غازی خان آ گیا تھا ، انہوں نے بتایا کہ کاپی میں میرے والد نے میری پیدائش کی تاریخ 10 جنوری 1955 ء بروز ہفتہ دن 12 بج کر 5 منٹ لکھی ہے۔ میٹرک مکمل نہ کر سکا ، پڑھائی چھوڑ دی ، چھوٹے تھے تو مجلس سننے جاتے تھے ، سرائیکی میں قصیدے ، نوحے اور ڈوہڑے کانوں کے راستے دل میں اتر جاتے ، اسی بناء پر سرائیکی سے محبت ہوگئی ، اس وقت اتنی سرائیکی کتب نہ ملتی تھیں ، دلنور نور پوری چھوٹے کتابچے چھواتے ، وہ ہم بھی لیتے تھے ، دلنور صاحب کو دیکھا تو نہ تھا پر دل میں بسے تھے ۔ 1990 ء میں تھوڑی شاعری شروع کی ، استاد سلیم نصرت صاحب نے سر پرہاتھ رکھا ۔ شاعری کے بازار میں بوڑھی عورت کی طرح یوسف کے خریداروں میں ہمارا نا م بھی آ گیا ۔ افضل ندیم افضل نے جب بات ختم کی تو میں نے کہا کہ آپ کے والد کا نام چوہدری الٰہی بخش؟ تو انہوں نے کہا کہ جی سئیں ایسا ہی ہے، ہم سرائیکی بولتے سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی ’’فارسی ‘‘بھول گئی ہے۔ میںنے پوچھا کہ آپ کے پاس سرائیکی زبان کا ذخیرہ کہاں سے آیا ؟ تو افضل ندیم افضل نے بتایا کہ اگر محبت ہو تو خدا بھی مل جاتا ہے، یہ تو زبان ہے۔ 23 مارچ2019 ء کو جھوک سرائیکی ملتان میں یوم پاکستان کے حوالے سے منعقد ہونیوالی تقریب میں افضل ندیم افضل شریک ہوئے۔ انہوں نے پاکستان کی محبت میں نظم پڑھی ۔ وہ ایک عرصے سے علیل تھے ۔ نحیف تو پہلے ہی تھے مگر اس مرتبہ زیادہ کمزور نظر آئے ، میں نے ان سے صحت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے تبسم کیا اور کہا ’’ اللہ کی رحمت ہے، صحت روز بروز خراب ہو رہی ہے ‘‘ ۔ میں نے کہا علاج؟ افضل ندیم نے ساتھ کھڑی ہوئی اپنی دو چھوٹی بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ان کی روٹی کا کریں یا اپنی بیماری کا؟ ہم نے اخبار کے ذریعے افضل ندیم افضل کے علاج کیلئے حکومت کی توجہ مبذول کرائی مگر ہماری اپیلوں پر کسی نے توجہ نہ دی اور آخر یہ وقت آیا کہ ڈی جی خان سے تعلق رکھنے والا معروف شاعر افضل ندیم افضل رخصت ہو گیا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق ڈی جی خان سے ہے ،ڈی جی خان کے ’’ بزدار ہاؤس ‘‘ کے قریب ہی افضل ندیم افضل رہتے تھے ، مگر وزیراعلیٰ ان کے فن اور فکر سے لا علم تھے یہ ٹھیک ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور شہباز شریف نے فنڈز کا بیشتر حصہ ’’ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر ( پلاک ) ‘‘ کو دیا ہوا ہے، اس ادارے کے ملازمین کو تنخواہ اور کروڑوں کے فنڈز حکومت دیتی ہے ، اس ادارے کا ٹی وی چینل ، ایف ایم ریڈیو بھی ہے ، موجودہ حکومت بھی اس ادارے کی سب سے بڑی سرپرست ہے، اس نے بھی ایسا کوئی ادارہ نہیں بنایا ، جو سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کیلئے کام کرے۔ بہرحال میں کہہ رہا تھا کہ شہباز شریف دور میں وسیب میں ہونیوالے پروگرام سرائیکی ہوتے تھے ۔ جو لوگ تفریق پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ محمد علی درانی کی طرح ناکام ہونگے ، وسیب کودارااول ، سکندر ، رنجیت سنگھ اور انگریز سامراج ختم نہیں کر سکاتو یہ کیا چیز ہیں ۔ ایسے لوگوں کیلئے افضل ندیم افضل کی زندگی اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔