پاکستان نے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور مشیر قومی سلامتی کے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے جن میں افغانستان میں بدامنی اوردہشت گردی کو پاکستان اور طالبان کے باہمی تعلقات کے تناظر میں منفی انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میںافغان سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغان حکام کے الزامات سے دونوں جانب پر اعتماد تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں‘ ہم آہنگی کا ماحول خراب اور افغان امن عمل نظر انداز ہوگا۔ دفتر خارجہ نے افغان حکام کو مشورہ دیا ہے کہ اختلافی معاملات کو افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی کے فورم میں اٹھا سکتے ہیں۔ افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کے تصدیق شدہ سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے چند روز قبل ایک ویڈیو بیان جاری کیا گیاتھا جس میں کہا گیا کہ افغان سکیورٹی فورسز جانتی ہیں کہ وہ کس کے لیے اور کس سے لڑ رہے ہیں، اس ہمسائے کے خلاف جس کی کوئی عزت و وقار نہیں ہے۔ وہ شیر شاہ سوری کو اپنا لیڈر کہتے ہیں، ان کے راکٹ کا نام غوری ہے اور ان کے گھروں کا نام غزنوی ہے۔ چند روز قبل افغان صدر اشرف غنی نے ایک جرمن میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'طالبان کوپاکستان سے سامان ملتا ہے، ان کی مالی اعانت ہوتی ہے اور وہاں سے بھرتی بھی ہوتی ہے۔ افغان صدر نے جرمن میگزین کو بتایا کہ 'طالبان کی فیصلہ سازی کرنے والی مختلف تنظیموں کے نام کوئٹہ شوریٰ، میرام شاہ شورہ اور پشاور شوریٰ ہیں، یہ پاکستانی شہروں کے نام پر رکھے گئے ہیں جہاں وہ واقع ہیں، ان کے ریاست کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ اشرف غنی نے کہا کہ 'بنیادی طور پر امن کا فیصلہ علاقائی سطح پر کیا جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ ہم اس پر دوبارہ غور کرنے کے دہانے پر ہیں مگر سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان کو اس میں شامل کیا جائے، اب امریکا صرف معمولی کردار ادا کرتا ہے، اب امن یا دشمنی کا سوال پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ طالبان کی جانب سے امارت کی یا آمریت کی بحالی خطے اور خصوصاً پاکستان میں کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان ایک ریاست ہے اور اس ریاست کو اب ایک اہم فیصلہ کرنا ہوگا۔ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن اور افغان عوام کی خودمختاری برقرار رکھنے کے لیے عشروں تک ایثار کا مظاہرہ کیا۔ افغانستان پر جب سوویت فوج نے حملہ کیا تو 35 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آئے۔ اب بھی 15 لاکھ مہاجر پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ اہل پاکستان نے افغان عوام کے شانہ بشانہ سوویت یونین کا مقابلہ کیا۔ سوویت یونین کا انہدام نہ ہوتا تو آج افغان محکوم ہوتے۔ نائن الیون کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے رہنما امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے سامنے لائے گئے۔ان رہناموں کا افغان عوام کی زندگی میں آسانیاں لانے میں کوئی کردار نہیں،ان کی کوئی جمہوری حیثیت ہے نا انتظامی اہلیت۔نائم الیون کے بعد امریکہ نے عالمی اداروں کے ساتھ مل کر جو ماحول بنایا اس میں پاکستان کے لیے طالبان اور دوسرے مقامی حریت پسند گروپوں سے تعلق ختم کرنا مشکل کام تھا،کروڑوں پاکستانیوں کو عدم تحفظ کا شکار نہیں بنایا جاسکتا تھا۔پھر افغانستان میں مزاحمت کرنے والے مسلمان بھائی تھے ،اس موقع پر ہوش مندی سے معاملات سنبھالنا ضروری تھا۔ اس لیے پاکستان نے اپنی توانائی طالبان دشمنی کی نذر کرنے کی بجائے افغان عوام کی بھلائی کے لیے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ افغان تنازع کا جنگی حل نہیں۔ یہ تنازع صرف مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے۔ لڑنے مارنے پر بضد امریکہ، اس کے اتحادی ممالک اور کابل انتظامیہ نے بیس سال کے لگ بھگ افغانوں پر بارود برسایا، جب طاقت کے زور پر معاملات درست نہ کر سکے تو انہیں پاکستان کی بات ماننا پڑی۔ صدر اشرف غنی کی بات تسلیم کرتے تو اب تک امریکی انخلا ممکن نہ ہوتا۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے امریکہ کی درخواست پر افغان دھڑوں کو امریکہ سے بات چیت پر آمادہ کیا۔ پاکستان کی کوششوں پر اشرف غنی انتظامیہ کو یوں بھی مشکور ہونا چاہیے کہ طالبان اور دیگر گروپ پاکستان کی کوشش سے کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات پر راضی ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ امن معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ جناب اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کو خدشہ ہے کہ انخلا کا عمل شروع ہوتے ہی طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپ تیزی سے اپنی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ افغان انتظامیہ اور بھارت نہیں چاہتے کہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی قوتیں افغانستان میں مضبوط ہوں۔ گزشتہ دنوں افغانستان میں لڑکیوں کے ایک سکول کو بم سے اڑایا گیا جس میں سو کے لگ بھگ بچیاں جاں بحق ہوئیں۔ ایسے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ افغان حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ نااہلی اسی طرح رہی تو اشرف غنی انتظامیہ سے اقتدار چھن سکتا ہے۔ پاکستان کے خلاف حالیہ بیان بازی میں حقائق کو نظر انداز کر کے جو بیانیہ تراشنے کی سعی کی جا رہی ہے اس سے مفاہمت اور ہم آہنگی کی فضا خراب ہونے کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوگا۔