گزشتہ کالم میں‘golden needleسکول کا تذکرہ ہوا تھا جو افغانستان کے تیسرے بڑے شہر ہرات میں طالبان کے پہلے دور حکومت میں قائم ہوا تھا۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ بظاہر لڑکیوں کے سلائی کڑھائی سکھانے کا مرکز تھا مگر درحقیقت شعر و ادب کی شائق‘افغان لڑکیاں اپنے ادبی اور تخلیقی شعور کی تربیت کے لئے یہاں داخلہ لیتی تھیں۔ادب پڑھانے کے لئے یہاں باقاعد ایک استاد بھی تعینات کیے گئے تھے۔ کپڑوں پر پھول بوٹے کاڑھتی ہوئی لڑکیاں اپنی نظمیں ایک دوسرے کو سناتیں، انہیں میں افغانستان کی مشہور شاعرہ نادیہ انجمن بھی شامل تھی۔جس کی عمر اس وقت اٹھارہ انیس برس ہو گی۔ نادیہ انجمن اوائل عمری میں ہی شعرو شاعری کی طرف رجحان رکھتی تھی۔اداسی کا ایک کاسنی ہالہ ہمہ وقت اسے اپنے حصار میں لئے رکھتا۔ان کہی‘اظہار کے لئے شور مچائے رکھتی۔ایسے میں وہ کاغذ قلم اٹھا کر اپنے اندر کی دنیا نظموں کی صورت میں دریافت کرنے لگتی۔یہ وہ دور تھا جب لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی تھی کجا کہ وہ شعر کہنے لگیں‘نادیہ انجمن کے اندر موجود تخلیقی اظہار کی ندی‘ جبر کے پتھروں سے ٹکراکر اپنا راستہ بناتی رہی،وہ نظمیں کہتی رہی۔اس کی پہلی کتاب تاریک گلاب کے نام سے میں شائع ہوئی۔نادیہ کے شوہر کو اپنی بیوی کی بطور شاعرہ شناخت پر سخت اعتراض تھا۔ وہ اسے مارتا پیٹتا۔اس کے باوجود اس کے اندر موجود شناخت کی خواہش کا آتش فشاں‘نظموں کی صورت اظہار پاتا رہا۔جو اس کے شوہر کے لئے ناقابل قبول تھا۔بالآخر 25برس کی عمر میں شاعرہ نادیہ انجمن‘اپنے شوہر کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔25برس کی عمر میں نادیہ انجمن نے نظموں کی دو کتابیں اور چھ ماہ کی معصوم بیٹی اپنی یادگار کے طور پر دنیا کو دیں۔ نادیہ کی نظمیں‘فارسی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر دنیا بھر میں شعری ذوق رکھنے والے افراد تک پہنچیں۔میں نے اس کی نظموں کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔ایک نظم دیکھیے۔جس کا عنوان ہے درخواست۔ اے آسماں اس جلتی ہوئی زمین پر برس/یہ زمین‘زندگی بخش بارش ؎کو ترس گئی ہے/اس کے ہونٹ خشک ہیں/اس کا دل جل رہا ہے یہ موت کے کنارے پر ہے/بادلو! اس پیاسی‘جلتی ‘تڑخی ہوئی دھرتی کی طرف آ جائو، اے آسمانی پانی‘اے قدرتی مسیحا‘مہربانی کر کے آ جائو/تمہاری عدم موجودگی،پھولوں کا دل توڑ رہی ہے/ہم پر پانی ڈالو/اس لئے ہم اور ہماری زندگیاں آگ کے شعلوں میں گھری ہیں۔ ٭٭٭٭٭ نادیہ انجمن کو اکیسویں صدی میں اپنی شناخت کے اظہار پر اتنی مزاحمت ملی کہ اس کی آواز کو خاموش کروایا گیا۔یہ افغان معاشرے کی صدیوں پرانی تہذیبی روایات کا تسلسل ہے کہ عورت کو عدم شناخت کے دائرے میں محدود رکھا گیا۔صدیوں سے افغان معاشرے میں مرد کو کسب معاش‘حکمرانی اور زندگی کے اہم امور کی انجام دہی کا حق حاصل رہا‘جبکہ اس کے مقابلے میں عورت کو کم تر‘کم عقل‘جذباتی مخلوق سمجھ کر اسے علمی ‘ادبی اور عقلی سرگرمیوں سے محروم رکھا جاتا۔جبر کے اس موسموں میں بھی‘افغان عورت اپنے احساسات کے اظہار کو نظموں کو پیراہن اڑھاتی رہی ہے۔لمز یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر فاطمہ فیاض نے بڑی عرق ریزی سے اس موضوع ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ جو مجھ کو محترم ڈاکٹر معین نظامی کی وساطت سے پہنچا۔اسی مقالے سے اخذ کردہ معلومات کالم کا حصہ بناتے ہیں۔ فارسی شعرا کے تذکروں میں شاعرات تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ افغانستان کی تہذیبی اور مذہبی روایات ہیں۔عورتوں کا لکھنا پڑھنا‘شعر کہنا اس حد تک افغان معاشرے میں ناقابل قبول سمجھا جاتا تھا کہ اس صلاحیت کی حامل عورتوں کو مرد طلاق دے دیا کرتے یا پھر اپنے ہاتھوں انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے۔گزشتہ دو دہائیوں میں‘افغان شاعرات کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آئے افغان شاعرات نے جس طرح جنگ زدہ سرزمین پر زندگی کو جلتے‘سلگتے اور تڑپتے دیکھا ہے، اس کا اظہار انہوں نے اپنی نظموں میں اس گہری حساسیت کے ساتھ کیا جو صرف ایک عورت تخلیق کار کا ہی خاصہ ہے۔ایک نظم کی چند لائنیں دیکھیے۔نظم کا عنوان ہے’’از راہِ کرم مجھے قبلہ رُو سلا دیں۔ چاند نکل آیا ہے/میرا خون نہیں رک رہا،بے ہوشی میں تمہاری آنکھیں یاد کر رہی ہوں/میںبہشتی جوڑا پہنے دلہن بنی تھی/دھماکے کو کتنے گھنٹے گزر گئے/ تمہارے ہونٹ کیسے ڈھونڈے جائیں‘ تمہارے رخسار‘ تمہارے بازو /شاید کسی درخت کے کنارے جاگرے ہوں/مجھے قبلہ رُو سلا دو /میری پلکیں بند کر دو۔ افغانستان میں دہائیوں پر محیط جنگوں نے، معصوم افغان بچوں سے ان کے بچپن کی بے فکریاں چھین لیں‘سینکڑوں افغان بچے ان جنگوں سے متاثر ہوئے، کتنوں کو موت اپنی گود میں اٹھا کر عدم کے پار اتر گئی اور کتنے ہی ایسے ہیں جو ہمہ جہت محرومیوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے۔ ’’طفل جنگ‘‘ ایک نظم ہے۔ایک افغان شاعرہ،ایک ماں کی نظر سے جنگ زدہ سہمے ہوئے بچے کو دیکھ کر لکھتی ہے۔ ’’تمہاری آنکھوں میں خوف منجمد ہے اور تمہارا دل دھک دھک کر رہا ہے/تم اپنے بے روزن گھر کی مسمار دیوار تلے،ٹھٹھرتی چڑیا کی طرح لرزاں ہو/کاش میں تمہار ے ٹھٹھرے لاغر و لرزاں بدن کو حرارت پہنچائوں/ایک اور اداس نظم دیکھیے،عنوان ہے۔اس بچے کا نام جو ہجرت کی یخ بستگی میں مر گیا/’’میں تمہیں تاابد یاد رکھوں گی اور تمہارے ہاتھوں کی یخ بستگی کا قصہ ہر ایک کو سنائوں گی/تمہارے سرد ننھے وجود کی کہانی/گرم لحاف میں خوابیدہ ہر شخص تک پہنچائوں گی/تمہاری ماں کے خاک پر قطرہ قطرہ ٹپکتے آنسوئوں کا قصہ کاغذ پر اتاروں گی/اے مہاجر ترین بچے!/کون سی زمین تمہارے تن رنجیدہ کی پناہ گا ہ بنی! واللہ نظم کے مصرعے ہیں کہ رگ وپے کو کاٹتے اداسی کے تیز نشتر۔!کالم تمام ہوا مگر اداسی نہیں۔ یہ آج شام تک میری پہچان رہے گی!!