وفاق المدارس پاکستان میں دینی مدارس کا سب سے قدیم بورڈ اور ملک گیردینی تعلیمی نیٹ ورک ہے ۔یہ 1959ء کوملک کے ممتازاورجید علمائے کرام کی کوششوںسے قائم ہوا۔ آج کل اس دینی تعلیمی بورڈ کے صدر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرصاحب ہیں جبکہ اس بورڈ کے اصل محرک مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ہیں جوکہ ناظم تعلیمات کے عہدے پرفائزہیں۔وفاق المدارس کے تحت فی الوقت پورے ملک میں بیس ہزار چھ سوپچاس مدارس بشمول شاخہائے رجسٹرڈ ہیں۔ایک لاکھ اکیس ہزار آٹھ سوسے زیادہ اساتذہ کرام ان مدرسوں میں درس وتدریس کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ زیرتعلیم طلباء وطالبات کی تعداد پچیس لاکھ دس ہزار چارسوبیاسی کوپہنچتی ہے۔کوئی مانے نہ مانے اس ملک میں اہل مدارس کا چار طرح سے استحصال ہورہاہے ۔پہلے نمبر پر ان مدارس والوں کااستحصال ہماری ریاست کررہی ہے ۔ریاست نہ تو سالانہ بجٹ میں سے ان اداروںکے اساتذہ کرام کو تنخواہیں دیتی ہیں اور نہ ہی یہ وہاں پر زیرتعلیم طلباء کی رہائش اور دیگر تعلیمی اخراجات کو افورڈ کررہی ہے ۔لیکن دوسری طرف ضرورت کے وقت ان طلباء کو عقیدے کے نام پر ریاست اپنے تزویراتی مقاصد اور ملکی دفاع کی خاطر خوب استعمال بھی کرتی ہے۔جس زمانے میںسوویت یونین کی سرخ افواج کوکاونٹر کرنے کا وقت تھا تو انہی مدارس کے طلباء سے فرنٹ لائن سپاہیوں کاکام لیا گیا تھا۔ سوویت یونین افواج کی انخلا کے بعد جب افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے تھے تو امریکی میزائلوں کانشانہ بھی اسی طائفے کو بنایاگیاجن کا بنیادی فریضہ مدرسوںمیں دینی تعلیم حاصل کرناتھا۔علیٰ ھٰذاالقیاس۔گوکہ ان سب خدمات کے باوجود ریاست کی تاریخی بے وفائی کانشانہ بھی ہر دور میں مدارس ہی کے لوگ بنے ہیں ۔یہ لوگ دہشتگرد بھی کہلائے گئے ، مخالفت میں جانے کی صورت میں مروائے بھی گئے اورڈالروں کے عوض یہ امریکہ کوبیچے بھی گئے ، وغیرہ ۔ ریاستی استحصال کے بعدمدارس والوں کادوسرا استحصال اس ملک میں مذہبی جماعتوں کی قیادتیں کررہی ہیں۔ یہ طلباء ہماری مذہبی جماعتوں کے فی سبیل اللہ سپاہی کہلائے جاتے ہیں۔ان جماعتوں کے امیدوار اسمبلیوں کیلئے ایم این ایزاور ایم پی ایز منتخب ہوتے ہیں تو ان کی جیت کے پیچھے یہی طلباء کارفرما ہوتے ہیں۔ان جماعتوں کی قیادتیں جہاں پر بھی ملین مارچ ، تحفظ ختم نبوت جلسہ اور مغربی ممالک کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی کال دیتی ہیںتو مدارس کے طلباء کی برکت سے یہ سبھی سرگرمیاب کامیاب ہوپاتی ہے ۔یہ بے چارے دھرنوں میں بھی بٹھائے جاتے ہیں۔ کیا ان جماعتوں کے ان بے تیغ سپاہیوں کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچاہے؟ کیا حکومت میں شامل کسی ایم پی اے ، وزیر نے ان طلباء کی بہتر زندگی اور روزگار پر کبھی غور کیابھی ہے ؟ اس سوال کا جواب مجھے نفی میں مل رہاہے کیونکہ انہی طلباء کے دم قدم سے اقتدار تک پہنچنے والے ان صاحبان نے ماضی میں کچھ کیا ہے نہ ہی مستقبل میں ان سے کچھ خیر کی امید وابستہ کی جاسکتی ہے۔ تیسرے نمبر پرسوائے کراچی ، لاہور ،ملتان ،فیصل آباد،پشاوراور کوئٹہ کے چند بڑے معیاری مدارس کے، ہمارے اکثردینی مدارس کے طلباء کا مدرسوں کے طلباء اور اساتذہ کا استحصال وہ مہتمم حضرات کررہے ہیں جو مدرسے کا مالک اور مہتمم ہوتاہے۔آپ ملک کے کسی بھی دوردراز علاقے کے مدرسے میں جائیں وہاں پرآپ کومدرسے کا مہتمم صاحب اپنے ادارے کے خزانے سے خوب مستفید ملے گا، الاماشاء اللہ ۔یعنی لوگوں سے چندہ تو مدرسے کے طلباء اور اساتذہ اسٹاف کے نام پر اکٹھا کرتاہے تاہم پوری بہادری کے ساتھ ان پیسوں سے اپنے ذاتی اخراجات بھی پوری کرتا ہے ۔ان مدارس میں پندرہ، بیس سال سروس دینے والے استاد کو بھی ایک پرائمری اسکول کی چپڑاسی کے برابر تنخواہ مہتتم ادانہیں کرتے۔ اپنے صوبے بلوچستان میں بے شمار ایسے مدارس کو ثبوت کے طور پر پیش کرسکتاہوں جہاں پر درجن بھر اساتذہ کوملنے والامجموعی تنخواہ ایک لکچرر کی تنخواہ کے برابر بھی نہیں ہوتی دیہی علاقوں میں مدرسہ کے استاد کی تنخواہ دو ہزار سے بھی کم ہوتی ہے ۔میرے علاقے میں درجنوں کوٹھی نمامدرسے اب بھی اس حال میں چل رہے ہیں جہاں پر پڑھنے والے امانت طلباء کو گلی گلی میںکھانامانگنے کیلئے پھرایا جاتا ہیے۔ گھروں کے دروازوں پر’’وظیفہ راوڑے ‘‘کامخصوص نعرہ لگا کر ان طالبعلموں کو وہاں سے ایک آدھ روٹی اور دو چمچے سالن ملتاہے۔ کھروں سے جمع ہونے والا کھانا طلبا اور استاد کھانے پر مجبور ہیں جبکہ دوسری طرف تعلیم کے نام پر اربوں اشرافیہ کی لوٹ مار کی نظر ہو جاتے ہیں۔ پنجاب میں بھی معاملہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ ملک بھر میں مدارس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عشر زکوۃ اور صدقات اکٹھا کرتے ہیں۔ جس کا ریکارڈ بھی نہیں رکھا جاتا اسی سبب کچھ مدارس عوام سے اکٹھے کیے چندہ کا غلط استعمال کرتے ہیں گو اب حکومت نے مدارس کے ذرائع آمدن کا ریکارڈ مرتب کروانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ مگر تاحال کوئی مربوط نظام مرتب نہیں ہو سکا ہے ۔ چوتھا ظلم اس ملک میں اہل مدرسہ کے ساتھ وفاق المدارس کی سرپرستی کی صورت میں میں ہو رہا ہے۔ وفاق المدارس کے یہ ذمہ دار حضرات اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس بیس ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں لیکن ان لوگوں کو یہ پتہ نہیں کہ ان مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے کس حال میں ہیں؟ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وفاق المدارس کے ان زمہ داروں نے کبھی ملک کے دوردرازعلاقوں کے مدرسوں میں اپنا مانیٹرنگ وفدبھیجاہو ۔وفاق والوںنے کبھی یہ زحمت محسوس نہیں کی ہے کہ ان سے ملحقہ مدرسے حقیقت میں دینی ادارے ہیں یا دکان اور کاروبار میں تبدیل ہوچکے ہیں؟اکابرین کا جانا صرف کراچی اور پنجاب کے ان مدارس تک محدود رکھا جاتاہے جہاں ہوائی سفر کی سہولت موجودہوتی ہے اورجہاں پر حقیقی دینی تعلیم دی جاتی ہے ۔(جاری ہے)