سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا مقام و مرتبہ کیسے بیان کروں۔منصورہ میں ایسا جنازہ بھی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک قلندر اور درویش جو خاموشی سے اس دنیا سے اٹھ گیا مگر وہ کچھ کر گیا جو بڑے بڑوں کی سوچ سے آگے ہے۔ عالم اسلام میں اس وقت جماعت اسلامی کی کوئی پہچان تھی تو وہ اس شخص کی وجہ سے تھی۔ سراج الحق نے بتایا کہ ہم تو بے تکلفی سے اسے بھائی کہتے تھے مگر اب دنیا میں بڑے بڑے علماء و مشائخ اسے الاستاد اور الشیخ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ایسے فقیر اور درویش ہی عالم اسلام کی اصل جان ہیں۔ عبدالغفار عزیز سے اگرچہ کم کم ملاقات ہوتی تھی مگر بہت پہلے مجھے ان کی عظمتوں کا اندازہ ہو گیا تھا۔دوستوں کے مشورے بلکہ شدید نگرانی کی وجہ سے ان دنوں میں اجتماعات سے اجتناب کرتا ہوں‘ سلمان غنی نے مجھے اطلاع دی کہ طویل عرصے سے بیمار عبدالغفار عزیز ہم میں نہیں رہے تو میں نے بے ساختہ کہا جنازے میں مجھے بھی ساتھ لے چلنا۔ جماعت اسلامی کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اپنے آغاز میں بڑے بڑے جید علماء کا ساتھ میسر آ گیا تھا۔ان میں ایک مسعود عالم ندوی بھی تھے۔ندوی صاحب نے اپنے علم اور اپنی عربی کے زور پر جماعت کو دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ یہ جماعت کی ابتدا تھی، ان کے ساتھ عاصم نام کے ایک نوجوان ہوا کرتے تھے۔ ندوی صاحب کے بعد انہوں نے خلا پیدا نہ ہونے دیا اور اس کام کو باحسن و خوبی جاری رکھا تاآنکہ خلیل حامدی کا زمانہ آیا۔ ایک سادہ سا شخص جو اچھرہ میں بیٹھے سارا دن کام میں مصروف رہتا۔ ہم نے چونکہ بقائمی ہوش و حواس ان کا زمانہ ہی دیکھا توانہیں دیکھ کر حیران ہوا کرتے تھے کہ یہ ہے وہ شخص جو پورے عالم اسلام میں جماعت اسلامی کی علامت ہے اور جس نے رابطے کے کام کو جدید ترین انداز سے مضبوط کیا ہے۔ مجھے تو حامدی صاحب اور ملک غلام علی جیسے لوگوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ دین اور مشن کی خاطر اپنی ذات کو بڑے مقصد کے لئے ایسے وقف کیاکہ دنیا کو اپنی خبرہی نہ ہونے دی۔خیر دونوں کی عظمتوں کا اعتراف ان کی زندگیوں میں ہو گیا تھا۔ ملک غلام علی تو سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے جسٹس بھی رہے۔اس وقت مولانا مودودی اس دنیا میں نہ رہے تھے کہ انہیں ان کی علمی معاونت کی ضرورت پڑتی۔ سچ پوچھئے تو عبدالغفار عزیز ایسے ہی آدمی تھے، درویش اور بے لوث۔ جنہوں نے خلیل حامدی کے اچانک رخصت ہو جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو اس طرح پر کیا کہ ایک طرف دنیا ان کی عظمتوں کی قائل ہو رہی تھی تو دوسری طرف پاکستان میں کم لوگ دیر تک ان کی عظمتوں سے واقف ہوئے۔ تاہم جلد ہی عام لوگوں کو احساس ہوا کہ جماعت کی زندگی میں جو خلا پیدا ہو گیا تھا۔ وہ پر ہو چکا ہے۔ایک دبلے پتلے درویش منش شخص کے عالم عرب سے تعلقات بالکل اپنوں جیسے تھے۔ ان کی طرح فصیح عربی بولتا ہوا یہ شخص پاکستان سے تعلیم پانے کے بعد ان کی درسگاہوں سے بہرہ یاب ہوا تھا۔ ایک جگہ میں نے لیبیا کا ذکر اس حوالے سے دیکھا ہے تو دوسری جگہ قطر کا۔اس کے عالم اسلام سے تعلقات ایسے تھے کہ ایک دن باتوں باتوں میں ان کے منہ سے نکل گیا کہ فلاں معاملے پر میں نے یوسف القرضاوی سے یوں کہا میرا دل چاہا کہ میں بچوں کی طرح پوچھو کہ کیا آپ انہیں جانتے ہیں۔ میری نظر میں اس وقت وہ عالم عرب کے سب سے بڑے عالم ہیں۔جن کا تعلق الاخوان اور الازہر تک سے رہا ہے۔ کئی اختلافی معاملات پر جب یوسف القرضاوی کا فتویٰ آ جاتا ہے تو میں فوراً ہتھیار ڈال دیتا ہوں کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ عالم عرب کے بڑے بڑے مدبرین ‘شیوخ اور علماء سے ہمارے عبدالغفار عزیز کی ایسی ہی دوستیاں تھیں۔تاہم اس کا تذکرہ وہ کھلے عام نہیں کیا کرتے تھے۔ جب کبھی کسی عالمی اجتماع میں دنیائے اسلام کی جید شخصیات پاکستان آیا کرتیں تو تب اندازہ ہوتا کہ وہ کس طرح اس عالمی برادری کا حصہ ہیں۔ جب یہ اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آئے تو کہا جاتا کہ والد نے ان کا ہاتھ قاضی حسین احمد کے ہاتھ میں دے کر عرض کی کہ اپنے اس بیٹے سے کوئی دین کی خدمت لے لیجیے۔اسی دن وہ جماعت کے امور خارجہ کے ادارے میں شامل ہوئے اور ساری زندگی وہیں گزار دی۔ جماعت اسلامی شاید واحد جماعت ہے جس کا امور خارجہ کے بارے میں ایک منظم ادارہ موجود ہے، جہاں یہ صرف رابطے ہی نہیں کرتے بلکہ تمام ممالک کی قیادت کے حوالے سے بھی تجزیے کرتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے ان کے ایسے رابطے ہیں جیسے یہ ایک فیملی ہو۔ مجھے یاد ہے کہ منصورہ میں اس وقت ایک اجلاس ہوا، جب شام پر خانہ جنگی مسلط کی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت فرخ سہیل گوئندی اور عبدالغفار عزیز کی ایک ہی رائے تھی کہ بشار الاسد کی حکومت کو ختم ہو جانا چاہیے۔گوئندی کی اور وجوہ تھیں اور عبدالغفار عزیز کی دوسری۔ مجھے نجانے کیوں یہ خیال آیا کہ یہ درست نہیں ہو رہا۔یہ ایک اور اسلامی ملک کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ چونکہ بشار الاسد کے نظریات بھی محل نظر ہیں۔ اس لئے ہم شام میں اٹھنے والی ان تحریکوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہمیں باخبر رہنا چاہیے۔دنیا نے دیکھا کہ پھر داعش‘النصرہ ‘القاعدہ سب کس طرح کس کس کے اشاروں پر عالم اسلام کو نچاتے رہے اور شامی مردوزن یورپ میں پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔مجلس کے بعد میں نے عبدالغفار عزیز سے ذرا کھل کر الگ سے اپنے موقف کا اظہار کیا تو سوچتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمیں ان پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔ وہ ڈسپلن کے بڑے پابند تھے۔ یہ نہیں کہ اپنی انفرادی فکر کو اجتماعی فکر پر حاوی کر دیتے تاہم جب بھی کسی مسئلے پر رکاوٹ محسوس کرتا تو میری کوشش ہوتی کہ ان سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ رہنمائی حاصل کرنے میں مجھے کبھی شرم نہیں آئی۔ تاہم اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اس حوالے سے درست آدمی کا انتخاب کیا جائے۔ وگرنہ ایک غلط انتخاب ہی آپ کو لے ڈوبے گا۔ عبدالغفار عزیز ایک درست آدمی تھے۔ان پر اعتبار بھی کیا جا سکتا تھا اور ان سے رہنمائی بھی حاصل ہو سکتی تھی۔ جماعت اسلامی کا اپنا نظم ہے اور ایک مضبوط ڈھانچہ بھی۔وہ جلد ہی اس خلا کو پر کر لیں گے۔تاہم جس طرح خلیل حامدی کے انتقال پر سب سناٹے میں آ گئے تھے۔آج بھی اسلام سے محبت رکھنے والوں کو چپ سی لگ گئی ہے۔ یہ دنیا داری کا زمانہ ہے۔بہت سے لوگوں کو شاید خبر تک نہ ہو کہ ہمارا کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے ۔جو جانتے ہیں انہیں خبر ہے کہ متاع کارواں کس بے دردی سے لٹ گیا ہے۔اللہ مغفرت کرے ‘وہ عالم اسلام کا ایک بہت بڑا اثاثہ تھے۔