پچھلی کئی صدیوں سے تاریخ کے بھنور میں پھنسے ہونے کے باوجود کشمیر نے کئی درخشندہ ستارے پیدا کئے، جنہوں نے چہار دانگ عالم میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ باہر سے آئے کسی بھی نامہ نگار، دانشور یا اسکالر کا، دورہ جموں جس طرح کشمیر ٹائمز کے مدیر وید بھسین سے ملے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا تھا، اسی طرح سرینگر میں یہ اعزاز آغا اشرف علی کے نام تھا۔ ایک چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا 97برس کی عمر میں سرینگر میں پچھلے ہفتہ خاموش ہوگئی۔ جنوبی ایشیاء کے جید ماہرین تعلیم سروپلی رادھا کرشنن، ذاکر حسین، خواجہ غلام السیدین یا پاکستان کے عطاء الرحمان جیسی شخصیات کی صف میں آغا صاحب کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ انہوں نے خاص طور پر کشمیر ی مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کروانے اور خطے کی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اکثر لوگ ان کو انگریزی زبان کے کشمیر نژاد امریکی شاعر مرحوم آغا شاہد علی کے والد کی حیثیت سے ہی جانتے ہیں، جن کی شاہکار انگریزی نظمیں پوسٹ کارڈ اور ہاف انچ ہمالیہ ، کشمیر کی بے بسی اور مظلومیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ آغا اشرف کے والد آغا ظفر علی قزلباش دراصل افغانی نسل خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو کئی صدی قبل کشمیر میں آ بسا تھا۔ان کے تین فرزندوں میں آغا ناصر علی، جو بھارت کی سول سروس سے لیبر سیکرٹری کے بطور 1977میں ریٹائرڈ ہوئے، آغا شوکت علی ، پاکستان سول سروس سے ریٹائرڈ ہوکر امریکہ میں جابسے اور سب سے چھوٹے آغا اشرف علی کشمیر میں ہی مقیم رہے اور ایجوکیشن کمشنر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوگئے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ نظام تعلیم کی بہتری ، پالیسی سازی اور اساتذہ کی تربیت میں ہی گزرا۔ ان کی والدہ بیگم ظفر علی یعنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ کشمیر کی پہلی خاتون میٹرک تھیں۔وہ بعد میں انسپکٹر آف اسکولز مقرر ہوئی ،اور خواتین کو تعلیم کی طرف راغب کروانے کیلئے 1987 میں انکو بھارت کے اعلیٰ سویلین ایوارڈ پدم شری سے نوازا گیا۔ چند سال بعد جب کشمیر میںعسکری جدوجہدبرپا ہوئی، اور اس کو کچلنے کیلئے انسانی حقوق کی جس طرح دھجیان اڑائی گئیں، تو انہوں نے یہ ایوارڈ واپس کردیا۔ سرینگر کے ایک معروف دانشور اور سابق بیوروکریٹ جی ایم زاہد کے مطابق 1947اور1950کا دور آغا خاندان کیلئے خاصا پریشان کن تھا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ 1944کو اپنے کشمیر کے آخری دورہ کے دوران بانی پاکستان قائد اعظم علی محمد جناح نے دریائے جہلم کے کنارے راج باغ میں واقع ان کی کوٹھی میں چائے نوش کی تھی۔ اکتوبر 1947کو جب بھارتی فوج نے سرینگر کی سرزمین پر قدم رکھا،تو شیخ عبداللہ کو عبوری ایمرجنسی انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا۔ آغا ہاوس پر تو ایک آفت ٹوٹ پڑی۔ آئے دن فوج اور پولیس کے اہلکار دندناتے تلاشیا ں لینے آپہنچتے تھے۔ آغا اشرف کے دونوں برادران ناصر اور شوکت ، جو کشمیر سول سروسزمیں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، کو گرفتار کیا گیا۔ 1949کو شوکت علی کی زوجہ مسرت اور برجیس عبدالغنی رینٹو کو بھی گرفتار کرکے جموں کے باہو قلعہ میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ا ن کا قصور تھا کہ خطے کے دورہ پر آئے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت اور پاکستان کو پیش کئے گئے میمورنڈم کو انہوں نے ڈرافٹ کیا تھا۔ بعد میں شوکت علی، ان کی زوجہ ، برجیس اور محمد یوسف بچھ کو لائن آف کنٹرول کی دوسر ی طرف دھکیل کر ملک بد ر کر دیا گیا۔ بیگم ظفر علی برقعہ پوش خاتون تھی۔ اپنے بچوں کی رہائی کیلئے ان کو کئی بار حکمرانوں کے دروازوں پر دستک دینی پڑی ۔ اسی دوران ڈاکٹرذاکر حسین سرینگر وارد ہوگئے تھے ، تقسیم سے قبل کشمیر میں اسٹوڈنٹ کانفرنس کے دوران ان کی ملاقات نوجوان طالب علم آغا اشرف سے ہوئی تھی اور جوہری نے نگینہ پرکھ لیا تھا۔ خاندان کو زیر عتاب دیکھ کر ذاکر حسین ، آغا اشرف کواپنے ساتھ ہی دہلی لیکر گئے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انکو پروفیسر مجیب اور غلام السیدین کے سپرد کردیا۔ یہ دونوں جید ماہر تعلیم تھے۔ ان کی سرپرستی میں آغا صاحب بھی ان کے رنگ میں رنگ گئے۔ 1961میں امریکہ میں انڈیانا یونیورسٹی سے انہوں نے تقابلی تعلیمی پالیسی پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا مطالعہ کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ چونکہ شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور سے گریجویشن کے بعد میں اعلیٰ تعلیم کیلئے سیدھا دہلی وارد ہوا، اسلئے سرینگر میں آغا صاحب کی رفاقت یا سرپرستی سے محروم رہا۔ مگر کئی بار وید بھسین یا رائزنگ کشمیر کے مدیر شجاعت بخاری کی معیت میں سرینگر میں ان کی کوٹھی کے سبزہ زار یا بیش قیمت قالینوں سے ڈھکے ان کے ڈرائینگ روم میں چائے پینے کا موقع ملا۔ وید بھیسن کے ساتھ ان کی گفتگو کے دوران بس یوں لگتا تھا جیسے ایک بڑی لائبریری کا دروازہ کھل رہا ہے۔ تاریخ کے ایسے دریچے اور واقعات بے نقاب ہوتے تھے ، جو ہزاروں کتابیں پڑھ کر بھی ممکن نہیں تھا۔ گفتگو کے دوران ان کے ایک ایک لفظ سے دانش اور معلومات کے موتی ٹپکتے تھے۔ 1989 میں کشمیر میں جب عسکری تحریک کا آغاز ہوا، تو اس وقت ریاست کے چیف سیکرٹری موسیٰ رضا یہ جاننے کیلئے بے تاب تھے کہ آزاد کشمیر کے مقابلے ، بھارت تو تین گنا رقوم کشمیر میں خرچ کرتا ہے تو عوام مطمئن کیوں نہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے جب وہ آغا اشرف کے پاس پہنچے، تو بغیر کسی حیل وحجت کے ان کو بتایا گیا کہ بھارتی اداروںنے کشمیری لیڈروں کو ایک کال گرل یا طوائف کے بطور استعمال کیا ہے۔’’ بس ایک رات کام نکال کر اور دام دیکر ان کو دھتکار دو۔‘‘ (جاری ہے)