کہیں مودی آگئے کہیں ڈونلڈ ٹرمپ ، حادثے پہ حادثہ ہے۔ بگٹٹ ،آدم کی ساری اولاد بستیوں کو جنگل بنانے پہ تلی ہے۔حادثے پہ حادثہ۔فرمایا :سب خشکی اور تمام تری فساد سے بھر گئی اور یہ آدم زاد کی اپنی کمائی ہے۔ میانوالی کے اس دور دراز گائوں میں ، گائوں کے باہر ،بکائن کے درختوں کی چھائوں میں ہم لیٹ رہے۔اسد الرحمان نے کہا:اتنا گھنا سایہ ہے کہ ہلکی بارش ہو تو ایک بوند بھی نہیں گرتی۔’’ہوا کیسی ہے ؟ ‘‘۔اسد نے پوچھا’’شاندار‘‘۔شاندار نہیں خمار انگیز، حیرت ناک۔ ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے باد پیمائی چک نمبر بیالیس جنوبی سرگودھا میں شیشم کا وہ درخت یاد آیا۔گنے کے کھیت اور بیلنا یاد آیا۔کتنی مختلف کتنی عجیب زندگی تھی،کبھی کھانا لے کر کھیتوں میں چلے جاتے اور ٹاہلی کی شاخوں تلے بیٹھ کر ہونٹ چاٹتے ، وہی دال ساگ مگر دوگنا لذیذ ’’ دوپہر کے کھانے میں کیا کھائیے گا ‘‘ میزبان نے پوچھا۔حیرت سے میں نے اس کی طرف دیکھا، یا اللعجب دو بجنے کو آئے اورکھانا ابھی تک پکانہیں۔’’کھانا تب پکے گاجب آپ اذن دیں گے ‘‘۔اسد الرحمان نے کہا۔مدتوں بعد ایسے آدمی سے ملاقات ہوئی جو جانتا ہے کہ تازہ طعام ہی خوب ہوتا ہے ،پھر ایک تازہ خیال کی لہر پھوٹی اورعرض کیا :اللہ بڑا بے نیاز ہے۔اکثر اس کی حکمت کا ہم ادراک نہیں کر سکتے۔دنیا کی سب نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے بعد ،نگر نگر گھومنے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد ،یہ ادراک اب ہوا کہ انبساط فراوانی میں نہیں گاہے محدودات میں ہوتا ہے۔زندگی اب ایسی ہو گئی کہ جب اور جہاں جس چیز کو جی چاہے آسانی سے میسر ہے۔اب یہ پتہ چلا کہ قلت کبھی بجائے خود ایک نعمت ہوتی ہے۔اب ساٹھ برس پہلے کی وہ چھوٹی سی بستی اور تنگ دستی یاد آتی ہے۔کبھی ایسا ہوتا کہ دال یا ساگ کھانے کو جی نہ چاہتا۔کوئی ناک بھوں چڑھاتاتو رنجیدہ ہو کربی بی جی کہتیں : ان نعمتوں کی تمہیں کیا قدر ، تین وقت پیٹ بھر کے کھاتے ہو۔ بیٹا تمہیں کیا معلوم۔ کتنے بہت سے لوگ دنیا میں ہیں ایک وقت کا کھانا بھی جنہیں مشکل سے میسر ہوتا ہے۔ ہاں مگر اْس گائوں میں ایسے بھی تھے کہ اب یاد آتے ہیں تو آنکھ بھیگنے لگتی ہے۔ دل پہ بارش سی برسنے لگتی ہے ،برف سی گرتی رہتی ہے۔ سرما کی ہڈیوں میں گودا جما دینے والی ٹھنڈ۔ نماز عشا ء کے بعد، کمرے میں دئیے کی روشنی۔لپک کر اباجان کواڑ کو لپکے۔زیرِ لب شاید ’’یااللہ خیر ‘‘ کہتے ہوئے۔ گھپ اندھیرے میں ماموں ابراہیم کھڑے تھے۔طویل قامت ،گندم گوں ،متین اور باوقار۔گنے کا ایک گٹھا اٹھائے۔’’خیریت تو ہے ‘‘ ابا نے پوچھا اور ان کا سارا وجود حیرت کا پیکر تھا۔’’بس یونہی‘‘۔گنے ابا کو تھمائے اور چل دئیے۔ ’’صبح مسجد میں بات کریں گے ‘‘۔ کون جانتا ہے ، پرودگار کے بھید کون جانتا ہے۔سات برس ہوتے ہیں کھانے کی میز پرایک دوست کے ہاں مشروب کی بوتلیں دھری تھیں۔ تھائی لینڈ سے آئے مہمانوں کے لئے ، اوپنر غائب۔افراتفری میں جو ایسے میں میزبان کو لاحق ہوتی ہے ، اوپنر کی تلاش جاری رہی۔اتنا بڑا گھر ، اتنے بہت سے کمرے۔میں نے ہاتھ بڑھایا اور بوتلیں اٹھا کر دانتوں سے ڈھکن کھول دئیے۔تعجب سے شہری بابو نے میری طرف دیکھا۔عرض کیا :پورا بچپن گنے چوستے ہوئے گزرا ہے۔ اگلی سویرنماز فجر کے بعد ماموں ابراہیم نے ابا کو یہ بتایا :مغرب کی نماز کے بعد میں گھر پہنچا تو گنے کا ایک ڈھیر پڑا دیکھا۔ معلوم ہوا بچے آپ کے کھیت سے لائے ہیں۔بات یہ ہے کہ بٹائی پر آپ کی زمین ہمارے پاس امانت ہے۔آدھی فصل ہماری ، آدھی آپ کی۔کھیتوں میں گیا اتنے ہی توڑ کر لایا۔ دونوں آدمی آنکھوں میں ہنسے۔ دونوں شاد کام آدمی جو الارم کے بغیر تہجد کیلئے جاگ اٹھتے ، دیر تک پھر تلاوت کرتے۔پھر حافظ محمد حسین کی امامت میں فجر کی نماز ادا کرنے کیلئے چھوٹی سی مسجد میں چلے جاتے۔کچھ دیر میں گائوں جاگ اٹھتا۔ بچے سکولوں کا اوربڑے کھیتوں کا رخ کرتے۔چک نمبر بیالیس جنوبی کا پرائمری سکول، جہاں پہلی جماعت والے کھیت کنارے ، بہتے پانیوں کے پاس شیشم کے درخت تلے ٹاٹ بچھائے آموختہ یاد کیا کرتے۔حافظ محمد حسین اور ماسٹررمضان کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے۔ اپنے طلبا کیلئے ماسٹر جی فکر مند رہا کرتے ، جیسے کوئی سگی اولاد کیلئے۔کوئی بچہ سبق بھول جاتا یا ہجے نا درست ہوتے تو درد کی لہر آنکھوں میں تیرنے لگتی۔عمر بھر اس درد نے اْن کے بچوں کوچین لینے نہ دیا۔عمر بھر طلبا کے دلوں میں احساس کی لو جگاتا رہا۔ان میں سے ایک دنیا کا سب سے بڑا سرجن بنا ، ایک سینیٹر، کتنے ہی خوش نصیب جو سمندروں کے پار اترے اور اپنے ہنر کا جادو جگایا۔ عمر بھر پورے قد سے اگر وہ کھڑے رہے ، رزق حلال کھایا ، دستِ سخا حرکت میں رکھا تو یہ انہی آنکھوں کا درد تھا۔مرحوم والدین کے لئے بے تابانہ دل سے دعا نکلتی ہے تو اسی شدت سے ماسٹر رمضان اور حافظ محمدحسین کے لئے بھی۔پانچ سال کا ہوں گا ،ایک دن بہت ، بہت سا وقت صرف کرکے سورۃ ’’اخلاص‘‘ یاد کرائی ،دوسرے دن سورۃ ’’والناس ‘‘۔ دونوں سورتیں سنا چکاتو اپنے ہاتھوں میں تھام کر فضا میں اچھالا۔ان کی آنکھوں کی چمک آج تک یاد ہے ، ہمیشہ یاد رہے گی۔ کم خوابی تھی ، بھوک کیا لگتی، ان دنوں کو یاد کیا بچپن میں بھوک جب بے تاب کئے رکھتی۔بی بی جی کی نظر بچا کر گھر سے نکلتا اور بیلنے پر چلا جاتا۔ گنے کے رس کا پیالہ اور تازہ گڑ۔اس پہ مگر ان کی تشفی نہ ہوتی ،کہتے کہیں سے لسی لائو اس میں رس ڈالو۔ اس پہ بھی قرار نہ آتا۔ بھاڑ جھونکنے والوں میں سے کسی کوبھگاتے کہ گھر سے شکر قندی لے آتے۔ گنے کے کھولتے ہوئے رس میں ابالتے اور تاکید کرتے جاتے۔’ٹھنڈی ہونے دو ٹھنڈی ‘ زبان اور ہونٹ مت جلا لینا ‘‘۔ٹھنڈی ہونے کون دیتا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گرم کھانے سے خوف آنے لگا۔ ادھر ماموں ابراہیم کی ہنستی ہوئی آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہیں ’’کہا تھا ، تمہیں کہا تھا لڑکے ‘‘۔ واپسی پر گڑ کی بھیلی دیتے۔ بعد کے عشروں میں کیسی کیسی شرینیاں چکھیں۔دیس پردیس کے پھل کھائے۔چین کاناریل کے دودھ میں ڈھلا مشروب جو کراچی کا تاجر مہمانوں کو پیش کرنے کیلئے لایا تھا۔اس گڑ کی بات مگر دوسری تھی۔اسد الرحمان نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک ذرا سے فاصلے پربلند شاخوں کی طرف اشارہ کیا۔شہد کے تین بڑے بڑے چھتے۔’’ آج شام ان سے شہد نکالا جائے گا۔ امید ہے کہ دس بارہ کلو۔ ظاہر ہے اس میں ایک آدھ بوتل میرے اورایک آدھ منصور آفاق کے حصے میں آئے گی۔۔۔ اور ظاہر ہے منصور آفاق کو ملی تو مجھ ہی کو ملی۔کوئی گھرکھاٹ تو اس کا ہے نہیں شہد کی بوتل پر اس کا کیا حق۔ حیرت اور رنج سے مسافر نے سوچا :ساری دنیا میں شہد کی مکھیاں مرتی جارہی ہیں آلودگی سے ،ابن ِ آدم کی سفاکی سے،کوئی دن جاتا ہے کہ شہد شاید معدوم ہوجائے۔ پھر باقی کیا رہے گا۔اٹھارہویں صدی کے ریڈانڈین سردار، سیٹل نے کہاتھا ’’جب جنگلوں کی مقدس خاموشی کو آوازوں کی بھرمار لے جائے گی تو سکھ کہاں رہے گا۔ سکھ کہاں رہے گا؟ حادثہ پھر کوئی بستی میں ہوا ہے شاید شام روتے ہوئے جنگل ہوا آئی ہے کہیں مودی آگئے کہیں ڈونلڈ ٹرمپ ، حادثے پہ حادثہ ہے۔ بگٹٹ ،آدم کی ساری اولاد بستیوں کو جنگل بنانے پہ تلی ہے۔حادثے پہ حادثہ۔فرمایا :سب خشکی اور تمام تری فساد سے بھر گئی اور یہ آدم زاد کی اپنی کمائی ہے۔