کشمیرپرپنجہ ہنودکی پیوستگی اورارض کشمیر پر بھارت کی جبری گرفت کومضبوط کرنے کے لئے نہ صرف امرناتھ بلکہ نئی نئی یاترائیں کشمیر میں کرانے کی کوششیںہو رہی ہیں۔ بھارتی ہندئووں کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر میں نت نئی یاترائوں کی شروعات اور ہندودھرم کے نام پر مقبوضہ کشمیرکے پہاڑوں، غاروں،دریائوں ،چشموںاور جھیلوں پر قبضہ جمانا نہایت ہی قابل تشویش صورتحال ہے۔ پچھلے کالم میں ہم نے پورے شرح وبسط کے ساتھ یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دراصل یہ ہندو صیہونیت ہے۔ کیونکہ عرب دنیا میں یہودیوں کی صیہونی تحریک نے ارض فلسطین پر حق جتلایا اور فلسطینیوں کو اپنے وطن سے محروم کر دیا۔یہود کی تقلیدمیں ہنود بھی کشمیرمیںیہی ناپاک سازش رچا رہا ہے۔ پوری سرکاری مشینری اس سازش کو کامیاب بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کازورلگارہی ہے ۔ آپ غورفرمالیں کہ 19جولائی2020ء کو بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ بھارتی آرمی چیف اوردیگردوسرے اعلیٰ فوجی حکام کے ہمراہ امرناتھ گھپاپہنچے جواس امرکابلیغ اشارہ تھاکہ کشمیرمیں ہندو صیہونیت روبہ عمل لائی جارہی ہے ۔اس طرح یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس بارمودی سرکارہٹ دھرمی پراتر چکی ہے اوربھارت کی ہندواکثریت کو دکھانا چاہتی ہے کہ صرف ہم ہیں کہ حالات چاہے کیسے بھی ہوںلیکن ہندودھرم کی پشت پناہ بن کر رہیں گے۔کوروناکے باوجود ہرصورت میں وہ اس یاتراکوبغیرکسی تعطل کے حالانکہ امسال جون میں ہی کشمیر میں ہندوئوں کے سینکڑوں مندروں کی دیکھ بال کرنے کے لئے بنائے گئے’’ امرناتھ شرائن بورڈ‘‘ نے ماہرین کی رائے لینے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ کوروناکے باعث اس سال یاترا کو منسوخ کرنا ناگزیر امربن چکاہے تاہم مودی اینڈکمپنی نے اس سلسلے میں مداخلت کر کے امرناتھ یاترا کو جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ مودی اینڈکمپنی نے بھارت کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل ’’دوردرشن ‘‘کو ہدایات دیں کہ وہ گپھا میں ہونے والی افتتاحی پوجا کو برارہ راست بھارت بھر میں دکھائے۔ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب کشمیر میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی روزانہ اوسط درجن سے زیادہ ہے اور ہر روز 500 سے زیادہ لوگ اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیںاور قابض فوجی اہلکاروں کی بڑی تعداد جن میں شامل ہے۔ امرناتھ کی گپھاجانے والے دوراستے ہیں جن میں سے ایک راستہ جنوبی ضلع اسلام آبادکے صحت افزا مقام پہلگام سے اور دوسراراستہ شمال مغرب میں ضلع گاندربل کے علاقے سونہ مرگ سے ہو کر گرزتا ہے۔ جنوب میں چندن واڑی اور سونہ مرگ میں بال تل سے کئی کلومیٹر کا پہاڑی سفر یاتریوں کو پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔ کشمیری مسلمانوں میں اس امرپرزبردست تشویش پائی جاتی ہے کہ اس یاترا کی وجہ سے ارض کشمیرکے چپے چپے پر کورونا وائرس پھیل جائے گاکیوں کہ یہ یاتری کورونابم کی شکل میں کشمیرمیں پھٹ پڑیں گے اورکوئی بھی جگہ ان سے محفوظ نہیں رہ سکی گی۔ بھارت میں مندروں کی یاتراپرپابندی عائد ہے چاردھام کی یاترا پر سخت ترین پابندیاں ہیں۔ اتراکھنڈ کی حکومت نے کہا ہے کہ ہندئووں کے چار بڑے مندروں کیدار ناتھ، بدری ناتھ، گنگوتری اور یمنوتری کی یاترا کے لیے صرف ان کو ای پاس ملے گا جو اتراکھنڈ کے باشندے ہیں، اس پاس کی مدت صرف دو دن ہو گی اور یاترا کے دوران کسی دوسری جگہ جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔لیکن یہ کشمیرہے کہ جہاں امرناتھ یاتراکے لئے اذن عام دیاگیاہے۔یہ یاتری صرف پہلگام سے دور پہاڑی سلسلوں تک محدونہیں رہتے بلکہ کشمیری مسلمانوں کے دل جلانے اورانہیں یہ بتلانے کہ’’ کشمیر ہماراہے‘‘کے لئے پہلگام کے پہاڑوں کا رخ کرنے سے قبل یاپھروہاں سے اترنے کے بعد یہ ہندویاتری سری نگرمیں واقع ڈل جھیل کی سیر کرتے ہیں، ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں، کشمیرمیں مندروں کی تلاش میں نکلتے ہیں اورکشمیرکے طول و عر ض میں کڑے فوجی حصارمیں پھیل جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کی خوفناک صورتحال میں امرناتھ یاترا کی اجازت دیکر اسلامیان کشمیرکو خطرات سے دوچار کردیا گیا ہے۔حالانکہ کشمیرمیں کوروناکی آڑ میں شدیدلاک ڈائون جاری ہے اورکسی کوبھی باہرجانے کی اجازت نہیں ،حتیٰ کہ مساجدمیں نماز کی ادائیگی پربھی قدغن عائد ہے۔ ادھر بھارت میں تبلیغی جماعت پر طوفان برپا کیا گیا اوراس کے اراکین کو ’’کورونا‘‘ کہا گیابھارت میں تمام مساجد مقفل کر دیں گئیں مسلمانوں کو عبادت سے روکا گیا اور دوسری طرف بھارت کے ہندئووں کو بڑے پیمانے پر امر ناتھ یاترا کی اجازت دے دی گئی ۔ بھارتی ہندووں کی یہ یاترادراصل مقبوضہ کشمیرپربھارت کی تہذیبی جارحیت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم کشمیرپرہندووں فسطائی طاقتوں کی چڑھائی ہے۔کشمیرمیں تحریک آزادی شروع ہونے سے قبل 1989ء میں بھارت سے آنے والے ہندویاتریوں کی تعداد صرف 12 ہزار تھی، مگر حالیہ برسوں کے دوران یہ تعدادلاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ہزارگناتعدادبڑھنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ بھارتی ریاستوں سے ہر سال زیادہ سے زیادہ ہندووں کو امرناتھ یاترا کی طرف راغب کرانے میں ہندو انتہا پسند کافی زور لگائے ہوئے ہیں۔ 2011ء میں ویشوا ہندو پریشد (VHP) کے عالمی سیکرٹری جنرل پروین تو گڑیا نے ایک بیان میں کہا تھاکہ امرناتھ یاترا ایک روحانی اور حب الوطنی کا سفر ہے۔اس کا کہنا تھا کہ یہ قومی یکجہتی اور علاقائی سالمیت کے لیے دو مہینے کی یاترا ہے، جو بھارت کے کونے کونے سے لوگوں کو متحرک کر کے قومی یکجہتی کو مضبوط کرتی ہے۔ جیساکہ عرض کیاجاچکاہے 1990ء سے قبل اس یاترا کو ہندوستان میں کوئی زبردست اہمیت حاصل نہیں تھی اور ماضی میں امرناتھ کے ساتھ ہندوئوں کی مذہبی عقیدت اس درجے کی بالکل بھی نہیں تھی جس درجے میں آج اس کا اظہار کیا جاتا ہے یاجس طرح آج اسے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ یہ صرف اورصرف ارض کشمیرپہ پنجہ ہنودکی پیوستگی ہے اور روز بروز مضبوطی یہ پنجہ گاڑے جارہے ہیں۔