ہم اس وقت کی بات کرتے ہیں جس وقت پی ٹی وی ایک کنول کے پھول کی طرح کھل اٹھا تھا۔اس پھول کی پہلی تتلی کنول نصیر تھیں۔ وہ لڑکی جس نے پاکستان ٹیلی ویژن آغاز میں پورے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرا نام کنول نصیر ہے۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن آ گیا ہے۔ آپ کو مبارک ہو‘‘وہ گھڑی اہلیان پاکستان کے لیے کتنی مسرت کی گھڑی تھی۔حالانکہ ابتدا میں پی ٹی وی کا ہر پروگرام بلیک اینڈ وائٹ ہوا کرتا تھا مگر پھر بھی اس میں وہ سارے رنگ بھرے ہوئے تھے،جن رنگوں سے مل کر زندگی جنم لیتی ہے۔کہتے ہیں کہ چیزیں اپنی ابتدا میں اتنی دلکش دیدہ زیب نہیں ہوتیں۔ ان میں آہستہ آہستہ حسن آتا ہے۔ یہ بات پاکستان ٹیلی ویژن کے حوالے بالکل بھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ ریڈیو پاکستان کے طرح جب پی ٹی وی کا آغاز ہوا تھا،تو اس میں ہمارے بڑے دماغ اور بڑے دل والے لوگ آئے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب میڈیا محبت تھی۔ اب میڈیا مارکیٹ ہے۔محبت اور مارکیٹ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس دور میں پاکستان کی میڈیا کو تخلیقی طور پر چار چاند لگانے والے جو لوگ تھے اب وہ اس ملک کی مٹی میں اس طرح سما چکے ہیں جس طرح مرزا غالب نے کہا تھا: ’’سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں‘‘ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں دل سے لکھا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اشفاق احمد نے عالمی ادب سے جو کچھ نچوڑا تھا وہ اپنی مٹی اور اپنے ماحول میں ملا کر اس طرح پیش کیا کہ لوگ ٹی وی اسکرین کے اسیر ہوگئے۔ کنول نصیر اس دور کا کردار تھی۔ وہ پہلی لڑکی تھی، جس نے پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے ڈرامے میں کام کیا۔ اتنی پراعتماد اور پرکشش براڈ کاسٹر ہم نے تو آج تک نہیں دیکھی۔ وقت کی گردش میں ہم اس کا نام بھول چکے تھے مگر جب گذشتہ روز سوشل اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کا نام الوداعی انداز سے لہرایا تو دل کا زخم ہوا ہوگیا۔ ہم کس طرح بھول سکتے ہیں، اپنے ان محسنوں کو جنہوں نے ملک کے اداروں کی نہ صرف بنیاد رکھی، مگر ان کی اپنے پسینے سے آبیاری کی۔ تاریخ کوئی سرکاری دفتر نہیں، جس کے دیوار پر سابق افسران کے نام لکھے ہوتے ہیں۔ تاریخ دل کی دیوار پر کندہ تحریر ہے۔ مگر وقت کہاں ملتا ہے وہ سب کچھ پڑھنے کا جو کچھ ہم کو پڑھنا چاہیے۔ آج ان میں سے ایک بھی منظر موجود نہیں جن مناظر کو دیکھ کر ہم ساری دنیا بھول جاتے تھے۔ یہ کس قدر المیہ ہے کہ جس روز پاکستان کی پہلی خاتون براڈ کاسٹر کی وفات ہوئی، اسی دن اس دنیا سے رخصت ہوئی وہ ڈرامہ نگار جس کا نام حسینہ معین تھا۔ وہ حسینہ معین جس نے ایک دور کے دل پر راج کیا۔میں مانتا ہوں کہ وہ خاتون قرۃ العین اور عصمت چغتائی قسم کی رائٹر نہیں تھیں اور اس نے ایسا کوئی دعوی بھی نہیں کیا تھا مگر پاکستان ٹیلی ویژن میںوہ خوشبو کے جھونکوں جیسے ڈرامے لائی۔ اس کے وہ ڈرامے انقلابی نہیں تھے مگر ان میں زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بکھریں ہوئی تھیں۔ حسینہ معین بھارت کے شہر کانپور میں پیدا ہوئیں مگر وہ سب سے پہلے راولپنڈی؛ اس کے بعد لاہور اور پھر کراچی میں رہیں۔ اس طرح انہوں نے پاکستان کے تین بڑے شہروں میں معاشرتی زندگی کو جس طرح دیکھا انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے ان کو اس طرح پیش کیا کہ ان میں ایک نرم گرم سی محبت اور ایک امید پیدا ہوئی۔ ان کے ڈراموں کو آپ طوفانی عشق کے قصے نہیں ملیں گے۔ ان کے ڈراموں میں ایک ڈری اور سہمی ہوئی سی محبت ہے۔ ایک ایسی محبت جو عورت کے دل میں پھول کی طرح کھلتی ہے مگر اس پھول پر شرم و حیا کی جو شبنم پڑی ہوئی ہوتی ہے اس شبنم کی وجہ سے وہ پھول اور زیادہ نکھر جاتا ہے۔ حسینہ معین نے اس دور میں جو ڈرامے تحریر کیے ان ڈراموں میں اس قدر کشش ہوتی تھی کہ لوگ رات کو سارے کام کاج بھول کر ان ڈراموں کو دیکھنے بیٹھ جاتے تھے ۔ حسینہ معین کے وہ ڈرامے آج بھی ہمیں یاد ہیں۔ تنہائیاں؛ کرن کہانی؛ دھوپ کنارے؛ آہٹ اور انکل عرفی! کون بھلا سکتا ہے یہ سارے نام جنہوں نے ہمیں پہلی بار شہری معاشرے میں محبت کی چھپی ہوئی کہانیاں سنائیں۔ لوگ بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ لوگ مرجاتے ہیں۔ مگر یادیں کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں اور وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ان ڈراموں میں تھوڑا مصنوعی پن بھی تھا مگر وہ مصنوعی پن اس محبت کا حصہ تھا؛جس محبت کو ہم شہری محبت کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔رومانس اور حقیقت دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر رومانس کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوا کرتی ہے۔ محبت کے بغیر تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ محبت تو انسان ہمیشہ اور ہر جگہ کرتا ہے۔ جس طرح دیہاتوں میں ہونی والی محبت کا اپنا مزاج ہوتا ہے اسی طرح سے شہری محبت کی اپنی صورت اور اپنی نزاکت ہوا کرتی ہے۔ حسینہ معین نے اس شہری محبت کو اپنے ڈراموں میں سمایا جس کو اس وقت اظہار کا ذریعہ نہیں مل پایا تھا۔ وہ شہری محبت آج والی شہری محبت جیسی نہیں تھی۔ ا س شہری محبت میں تھوری سی وفا بھی تھی اور تھوڑی سی شرم و حیا بھی تھی اور اس میں کچھ قربانی اور تھوڑی سی بغاوت بھی تھی۔ حسینہ معین نے اپنے ڈراموں میں پاکستانی معاشرے میں ابھرتی ہوئی عورت کے کردار کی جو عکاسی کی ہے وہ اپنی جگہ ایک دور کی تاریخ کو محفوظ کرنے جیسی بات ہے۔ ان ڈراموں پر آج کوئی اعتراض کرسکتا ہے کہ ان میں غربت اور پس ماندگی نہیں ہے جو اس معاشرے کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ تنقید تو کوئی بھی ہو سکتی ہے مگر حسینہ معین کے جن ڈراموں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ ڈرامے مکمل طور تصوراتی نہیں تھے۔حالانکہ ادب میں تصور کی الگ سے اہمیت ہوا کرتی ہے۔ ادب صرف حقیقت کو اس طرح پیش نہیں کرتا جس طرح حقیقت نظر آتی ہے۔ ادب تو انسان کا ترجمان ہے۔ انسان صرف حقیقت نہیں ہے۔ انسان کچھ خواب؛ کچھ خیال اور کچھ تصور بھی ہوتا ہے۔ حسینہ معین کے ڈراموں میں جو ڈرامہ سب سے زیادہ مجھے پسند آیا تھا وہ ڈرامہ تھا ’’ان کہی‘‘۔مجھے آج بھی محسوس ہوتا ہے کہ محبت ایک ان کہی بات ہے۔سندھی ادب کے نامور ادیب اور مصنف امر جلیل کے ایک افسانے میں ایک کردار دوسرے کردار سے کہتا ہے کہ ’’میں تم سے وہ الفاظ نہیں کہنا چاہتا جو آج تک کروڑوں اور اربوں انسانوں نے اپنے زبان سے کہے ہیں‘‘کیا یہ حقیقت نہیں کہ لوگ محبت کرتے کم اور کہتے زیادہ ہیں۔ اصل محبت کہی نہیں جاتی۔ اصل محبت کہی نہیں جا سکتی۔ محبت محسوس کی جاتی ہے۔ محبت محسوس کرائی جا سکتی ہے۔ محبت پھول نہیں ہے۔ محبت خوشبو ہے۔ محبت کو بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اس لیے حسینہ معین نے اپنی ایک رومانوی ڈرامے کا نام رکھا تھا ’’ان کہی‘‘۔ محبت ان کہی بات ہے۔ اور صرف محبت ہی کیوں؟ہماری تاریخ؛ہماری سیاست اور اپنے وطن عزیز کے بارے میں سیاست کا جھوٹ اور عوام کی سچائی؛ اس سے زیادہ اور کوئی ’’ان کہی‘‘ بات ہے؟