جس بات کا ڈر تھا وہی ہو رہی ہے۔ چند ہفتے پہلے ہم اصرار کیا کرتے تھے کہ سینٹ اور اسمبلیوں کے الیکشن ہو لینے دو۔ نتیجہ کچھ بھی ہو ملکی معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ اب شاید بات بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ جب انتخابات کی بات ہوتی تو میں اسمبلیوں کے ساتھ سینٹ کا تذکرہ کر کے یہ سمجھتا تھا کہ گویا بہت باریک نکتہ بیان کر رہا ہوں ڈر تھا کہ ان انتخابات کو ملتوی کرانے کے لیے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ صوبائی اسمبلیاں بھی ٹوٹ سکتی ہیں۔ اور بھی بہت سے ٹوٹکے آزمائے جا سکتے ہیں۔ تاہم جو ہوا اس کا کسی کو خیال بھی نہ تھا۔ اس لیے کہ کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ اتنا کھل کر کھیل کھیلا جائے گا۔ اب کوئی ہے جو انتخابات کے نتائج سے مطمئن ہو یا یہ نہ سمجھتا ہو کہ یقینی طور پر کوئی گھپلا ہوا ہے۔ جس نے اسے اپنی کامیابی سمجھا‘ اس نے بھی جو بات کی وہ الیکشن کی توہین کے مترادف ہے۔ باقیوں میں ن لیگ ہی نہیں‘ تحریک انصاف نے بھی اس کے بارے میں اپنے رویے اور اپنے اقدامات سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ انتخابات تو چاہے ہو گئے‘ تاہم انہوں نے انتخابات کی حرمت کو پامال کر کے رکھ دیا۔ میں نے کہا ‘ بات بہت آگے بڑھ گئی ہے اب صرف انتخابات کے بروقت ہونے پر شک نہیں کیا جا رہا ہے۔ بلکہ صاف کہا جا رہا ہے کہ یہ مبنی بر انصاف نہیں ہوں گے۔ اس وقت میں یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ اب معاملہ صرف یہ نہیں کہ انتخابات وقت پر ہو جائیں بلکہ یہ ہو گیا ہے کہ اس کے نتائج تسلیم کر لیے جائیں اگر خدانخواستہ انتخابات کے بعد بھی سیاسی ہوا صاف نہ ہوئی تو یہ اس ملک کے لیے بہت ہی خطرناک ہو گا۔ کب سے کہا جا رہا ہے کہ خدا کے لیے ایسی صورت پیدا نہ کریں کہ ادارے آمنے سامنے آ جائیں۔ اب کوئی کسر باقی نہیں بچی ہے۔ سچ پوچھیے تو کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج وزیر اعظم کے بیان سے صورت حال کا اندازہ ہوتاہے جنہوں نے کہا ہے کہ ملک چلانا عدلیہ کا نہیں حکومت کا کام ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ججوں اور جرنیلوں کی طرح سیاستدانوں کی بھی عزت ہوتی ہے یہی بات جب احسن اقبال نے بڑے غصے میں کہی تھی تو اس وقت ماتھا ٹھنکا۔ معاملہ توہین عدالت کا نہیں تھا‘ بلکہ بات یہاں تک جا پہنچی تھی کہ کوئی پردہ نہیں رہا تھا۔ نواز شریف نے صاف لفظوں خلائی مخلوق یا نادیدہ قوتوں کی بات شروع کر دی۔ آپ اختیارات کے زور پر یا طاقت کے ذریعے سب کچھ کر سکتے ہیں‘ مگر جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ۔ مثال کے طور پر اپنے پختون علاقے کو دیکھیے۔ فاٹا کے معاملے پر غور کیجیے۔ وزیر اعظم نے کسی ہپر دھپڑمیں پارلیمنٹ میں بھاگم بھاگ آ کر فاٹا اختلافات کو اسی ماہ کے اندر نافذ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آخر ایک دم ایسی کون سی ایمرجنسی پیدا ہو گئی تھی کہ سکیورٹی کے اجلاس سے اٹھ کر وزیر اعظم سیدھے ایوان میں پہنچے اور چھوٹتے ہی یہ اعلان کر دیا۔لگتا ہے مولانا فضل الرحمن کے بھی کس بل نکل چکے ہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ فوج کے دبائو میں کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوج کیوں دبائو ڈال رہی ہے یا ان پر کیا دبائو ہے۔ ہمارے شمالی علاقے میں دشمن نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ الٹا ہمیں لعن طعن کیا جاتا رہا ہے۔ ہم نے لاکھوں افراد کی قربانیاں دے کر جن میں ہزاروں ہمارے عسکری جوان بھی ہیں‘ اس خطے کو دہشت گردی سے پاک کیا ہے۔ تاہم بھول گئے کہ فوجی ایکشن کے بعد اصل کام شروع ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کے دل جیتنے کا عمل ہوتا ہے ہم یہی کہتے رہے کہ سویلین ڈھانچہ موجود نہیں ہے‘ مگر ہمیں احساس نہ تھا کہ ہم طویل عرصے تک غیر سویلین انداز سے اس علاقے کو نارمل نہ رکھ سکیں گے۔ اس خطے میں ہزاروں لاکھوں لوگ اپنے ہی گھر میں بے گھر ہوئے۔ ہم نے پہلی بار آئی ڈی پی کی اصطلاح سنی۔ہمیں ان کے دکھوں کا مداوا کرنا تھا جو ہم نے نہیں کیا۔ اب نتیجہ یہ نکلا کہ پختونوں کے تحفظ کی ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ابھی کل ہی سراج الحق ایک انٹرویو میں مجھے بتا رہے تھے(جو ابھی نشر نہیں ہوا) کہ ہم نے سوات میں جلسہ کیا۔ بہت سے نعرے لگے جو نہیں لگنا چاہیے تھے۔ سوات تو وہ علاقہ ہے جو فاٹا میں نہیں ہے۔ اس میں کیے جانے والے فوجی ایکشن کی اتنی تعریف ہوئی کہ اسے دنیا بھر کی عسکری اکیڈمیوں میں پڑھایا جاتا تھا یہی بات ہوئی ناکہ ہمیں اس آپریشن کے بعد جو کام کرنا تھا۔ وہ نہ کر سکے۔ ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ ہم ان شاء اللہ اس صورت حال کو سنبھال لیں گے‘ مگر اس تاخیر کا تو ہمارے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ اب بھی ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ صرف طاقت کے زور پر ہم لوگوں کے دلوں پر حکومت نہیں کر سکتے۔ کراچی‘ بلوچستان‘ فاٹا ہر جگہ ہم نے اپنی فوج سے وہ کام لیے ہیں جو سویلین کو کرنا تھے۔ بہرحال انہوں نے اپنا کام کر دیا‘ اب سنبھل اورسدھر جانے کا وقت ہے۔ آج جہاں وزیر اعظم کا بیان ہے جس میں انہوں نے ججوں اور جرنیلوں کے ساتھ سیاستدانوں کی عزت کی بھی بات کی ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ کے اندر سے افراد کو کون باغی بنا رہا ہے۔ اس دن جوڈیشل کانفرنس کے بھی بیانئے سامنے آئے ہیں جسے اخبارات نے اس طرح چھاپا ہے کہ گویا یہ ایک دوسرے کے جواب میں۔ یہ کہا گیا کہ حکومت چلانا آپ کا کام‘ مگر انسانی حقوق کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ آپ خبروں کو پڑھتے جائیے لگتا ہے‘ معاملات نارمل ہونے والے نہیں۔ اس وقت میرے سامنے ٹی وی کی سکرین پر مانسہرہ کا جلسہ چل رہا ہے جس میں نواز شریف یوں لگتا ہے رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ ان حالات میں صاف نظر آتا ہے کہ انتخابات وقت پر ہو بھی گئے تو اس کے بعد بھی حالات نارمل نہیں ہوں گے۔پختون معاملہ تو صرف ایک اشارہ ہے۔ اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ انتخابات ویسے نہیں ہونا چاہئیں جیسے سینٹ کے ہوئے ہیں۔ بھٹو صرف دھاندلی کے ہاتھوں مارا گیا تھا یہاں سوال بہت آگے کا ہے۔ اشاروں اشاروں میں سمجھا رہا ہوں۔ خدا کے لیے سمجھ جائیے۔ عالمی بھیڑیے بھی منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ سامراجی سازشیں بھی عروج پر ہیں۔ ہماری سادہ لوحی ہمارا دفاع نہیں ہے۔ ہمیں انتہائی حساس طریقے سے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا یہ کسی کی انا کا معاملہ نہیں‘ ملک کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اللہ کرے ہم اسے سمجھ جائیں۔ دوبارہ عرض کئے دیتا ہوں کہ ذمہ داری کسی ایک ادارے‘ کسی ایک فرد‘ یہ کسی ایک گروہ پر نہیں ڈالی جا سکے گی۔ خدا کے لیے سمجھ جائیے۔