وطن عزیز میں ہونے والے عام انتخابات میں فسادات پھیلانے کیلئے را، موساد، این ڈی ایس اور سی آئی اے نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ جس کے تحت پاکستان کے اندر مذہبی اور سیاسی لیڈروں کو نشانہ بنایا جانا تھا۔ اور جلسے جلوسوں میں ٹارگٹ کلنگ کی جانی تھی۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کروانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا۔ اس مقصد کیلئے سندھ کے اندر ایم کیو ایم لندن جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں منظور پشتین گروپ سے فسادات برپا کروانے تھے۔ جب کہ پنجاب کے اندر اس حوالے سے کالعدم تنظیموں کو متحرک کیا گیا تھا۔ اس مقصد کیلئے را اور موساد سمیت دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے 3 ارب روپے کی فنڈنگ کی گئی تھی۔ تاکہ پاکستان کے اندر لاقانونیت پیدا کی جائے۔ اس بات کا ثبوت سیکریٹری الیکشن کمیشن کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہاکہ عالمی طاقتیں عام انتخابات کو سبوتاژ کرناچاہتی ہیں۔ عام انتخابات کے موقع پر بڑے پیمانے پر سکیورٹی خطرات ہیں جو الیکشن کمیشن کیلئے پریشانی کاباعث ہیں۔پولیس کی سکیورٹی ناکافی ہے۔ صوبوں کی طرف سے پاک فوج کی خدمات کامطالبہ آرہاہے۔ غور کیاجارہاہے کہ پاک فوج کو صرف حساس پولنگ اسٹیشنوںیاتمام اسٹیشنوںپر تعینات کریں۔ ایک تجویز ہے کہ تمام پولنگ اسٹیشنوں پرفوج تعینات کی جائے۔ملک میں 20ہزار پولنگ اسٹیشن حساس قرار دیدیے گئے۔ حساس پولنگ اسٹیشنوں میں کیمرے لگائے جائیں گے۔ کیمرے سے سکیورٹی اور الیکشن عملے کے نظم و نسق کوبھی مانیٹر کیاجاسکے گا۔ نگراں وزیرداخلہ نے کہا کہ ملک کے حالات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں تاہم اب بھی عام انتخابات کے دوران کسی بھی سیاسی جماعت کی ریلی یا جلوس کو نشانہ بنانے کا خدشہ موجود ہے کیونکہ افغانستان سے 35 سال سے چلنے والا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ چند ملکی اور بیرونی عناصر انتخابات کے موقع پر نمایاں سیاست دانوں کو ٹارگٹ کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں بڑے پیمانے پر سیاسی تشدد کا خدشہ ہے۔دہشت گرد انتخابی عملہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں اور نتیجتاً خوف کی ایسی فضا قائم ہو سکتی ہے کہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہ رہے۔ پاکستان میں سکیورٹی امور کے ماہرین کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور سیاسی تشدد کا خدشہ ہے۔ اس ضمن میں ملکی اور غیر ملکی عناصر کے مبینہ گٹھ جوڑ کی بات کی جا رہی ہے۔لہذا بھارت، داعش، امریکہ اور طالبان کے مبینہ منصوبوں اور انکے ممکنہ نتائج کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں بہت دور کی کوڑیاں ملائی جا رہی ہیں، وہیں بعض ذمہ دار سکیورٹی ماہرین اور سیاسی و سماجی امور کے ماہرین بھی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے مبینہ گٹھ جوڑ کا حوالہ دے رہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ حال ہی میں طالبان لیڈر ملا ٰفضل اللہ کی ہلاکت کے ردعمل کے لیے انتخابی ماحول سے زیادہ بہتر موقع کیا ہو سکتا ہے؟ دوسری طرف افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے مسلسل واقعات کا پاکستان کے اندر ردعمل متوقع ہے۔ 2013ء کے انتخابات کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے کہ جب طالبان کی جانب سے دو سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک سو پچاس سے زائد کارکنوں کو ہلاک کیا گیا اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سکیورٹی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ یہی صورتحال پنجاب میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں کہ عملی طور پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات روکے نہیں جا سکے۔ مثال کے طور پر خیبر پختونخواہ میں معروف سکھ راہنما چرن جیت کا قتل، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ، ڈیرہ مراد جمالی سے ہندو تاجر کا اغوا، ایسے واقعات ہیں جنہوں نے ’’پیغام پاکستان‘‘ کے متوقع مثبت اثرات پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پھربھارت اور داعش نے پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑکر رکھا ہے۔ بھارت کو یہ بات تکلیف پہنچا رہی ہے کہ پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔ عام انتخابات 2018ء میں حصہ لینے والی ترقی پسند اور جمہوریت نواز جماعتیں، قومی و بین الاقوامی میڈیا اور سول سوسائٹی مسلسل تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران مذہب کو بطور نعرہ استعمال کرنے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ سکیورٹی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے مطابق،دہشت گردوں کو معلوم ہے کہ سیاست دان انتخابی مہم میں ضرور شامل ہوں گے۔ دوسری اعلیٰ عدلیہ نے بلٹ پروف گاڑیوں کی ممانعت اور سیاست دانوں کو پولیس سکیورٹی فراہم کرنے پر پابندی لگا کر سیاست دانوں کو مزید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر میاں افتخار حسین دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن اپنے وسائل سے اپنی سکیورٹی کا بندوبست نہیں کر سکتے۔اس مرتبہ تشدد کی لہر خیبر پختونخواہ تک محدود نہیں رہے گی۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ پنجاب بھی تشدد کی لہر کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملوں جیسے واقعات مزید ہوسکتے ہیں اور سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس مرتبہ الزامات، جوابی الزامات، مذہبی تعصب پر مبنی نفرت انگیزی، کردار کشی، مغلظات اور فتووں کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔ایک اطلاع کے مطابق الیکشن کمشن کی درخواست پر وزارت دفاع نے عام انتخابات کے لیے تین لاکھ فوجی تعینات کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اس مقصد کے لیے تینوں مسلح افواج کے ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔