جوں جوں عام انتخابات قریب آ رہے ہیں ملکی سیاست کا درجہ حرارت توں توں بڑھ رہا ہے۔ اس انتخابی منظر نامے میں ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی نئی صف بندی کے ساتھ عوام کے مذہبی جذبات کا سہارا لے کر انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ البتہ میڈیا اور ٹی وی کیمروں کی تمام تر توجہ پنجاب اور کراچی کے سیاسی منظر نامے پر مرکوز ہے۔ قومی سطح پر سیاسی منظر نامے میں جہاں ہلچل برپا ہے اس ہنگامے میں مسلم لیگ ن میں تخریب اور پاکستان تحریک انصاف کی تنظیم نو کا عمل بھی جاری ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے آئندہ عام انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے کردار کے بارے میں بحث چھیڑ دی تھی۔ جو اب قدرے ماند پڑ چکی ہے یہاں تک کہ نارووال میں وفاقی وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ بھی مذہبی شدت پسندی کے بڑھتے خطرہ کو موضوع بحث نہ بنا سکا جس کے آئندہ انتخابی مہم پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ عوام کے سیاسی جذبات کو ابھار کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا الزام محض مذہبی جماعتوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ہماری کچھ قومی جماعتیں بھی اس فن میں طاق رہی ہیں۔ مذہبی جذباتیت اب صرف ایک سیاسی بیانیہ ہی نہیں رہی بلکہ اس سے انکار سے آپ کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ کی اکثر سیاسی جماعتوں نے مذمت کی ہے مگر کسی کو بھی لوگوں کے مذہبی جذبات ابھارنے والی مذہبی سیاسی جماعت کو چیلنج کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایسے عناصر کو چیلنج کر کے اپنا سیاسی کیریئر دائو پر نہیں لگانا چاہتا۔ یہاں تک کہ حکمران جماعت جو اس مذہبی انتہا پسندی کا براہ راست شکار ہے وہ بھی مذہبی حلقوں کے مقابل نہیں آنا چاہتی کیونکہ اس صورت میں مسلم لیگ ن کے لیے انتخابی مہم چلانا ناممکن ہو سکتا ہے۔اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ مذہبی جذباتیت آئندہ الیکشن پر کس قدر اثر انداز ہوتی ہے مگر یہ بات طے ہے کہ اس بار الیکشن کمیشن اور سکیورٹی اداروں کے لیے ملک میں فری اینڈ فیئر انتخابات کا انعقاد چیلنج سے کم نہیں اس طرح اب یہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ مذہبی جذبات کو تشدد پر ابھارنے والے عناصر سے خود کو کس حد تک دور رکھتی ہیں۔ روایتی طور پر مذہبی جماعتوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ انتخابات میں متاثر کن منشور اور ایجنڈا پیش کریں ۔ان کی بنیادی توجہ ملک میں نفاذ اسلام کے ذریعے اسلامی فلاحی سماجی معاشرہ کے قیام کی سرپرستی رہی ہے۔ عالمی سطح پر امہ کے تصور کی وجہ سے ہی 2002ء کے انتخابات میں ان کو انتخابی فوائد حاصل ہوئے تھے۔ خاص طور پر بلوچستان اور کے پی کے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو پذیرائی ملی تھی۔ بلوچستان اور کے پی کے میں سیاسی جماعتوں کی کامیابی میں امریکہ کے افغانستان پر حملہ کا بھی کلیدی کردار تھا۔ 2002ء کے انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے عوام کے امریکہ مخالف جذبات کو ابھارنے میں کامیاب رہا تھا۔ البتہ 2008ء کے انتخابات میں اینٹی امریکہ ایجنڈا کارگر ثابت نہ ہو سکا۔ اس وقت سے مذہبی جماعتیں اپنے منشور اور ایجنڈے کو قابل عمل اور پرکشش بنانے کی مسلسل کوشش کر رہی ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں دو بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ اور جماعت اسلامی نے اپنے بارے میں اینٹی سیٹس کو اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ تاثر ابھارنے کی کوشش کی مگر دونوں جماعتوں کو عوام میں قابل قدر پذیرائی نہ مل سکی۔ درحقیقت 2013ء کے انتخابات میں مذہبی جماعتیں کل کاسٹ ہونے والے ووٹوں کا محض 5فیصد ہی حاصل کر سکی تھیں جو مذہبی جماعتوں کی 1997ء کے بعد دوسری بدترین کارکردگی تھی۔ جب تمام سیاسی جماعتوں میں صرف جے یو آئی( ف) ہی قومی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل کر سکی تھی۔ اب جے یو آئی (ف) جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی مذہبی جماعتوں نے مل کر ایک بار پھر ایم ایم اے کو اس امیدکے ساتھ زندہ کیا ہے کہ یہ جماعتیں 2002ء کے نتائج دہرا سکیں گی۔ مگر اس بار ایم ایم اے 2002ء کی نسبت کسی جذباتی اپیل سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ اس بار ایم ایم اے کی انتخابی مہم کا انحصار بھی چار عوامل پر ہو گا جو جمہوریت کی حفاظت ،اسلامی فکر کا فروغ‘ مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت اور کسی حد تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ تاثر ہیں۔ کے پی کے میں ایم ایم اے کا مقابلہ کرنے کے لیے تحریک انصاف جے یو آئی سمیع الحق گروپ سے انتخابی اتحاد کر چکی ہے۔ تحریک انصاف سمیع الحق کے اکوڑہ خٹک کے مدرسے کو بھاری گرانٹ دیتی رہی ہے۔ مولانا سمیع الحق دفاع پاکستان کونسل کے روح رواں ہیں جو متعدد مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہے جو 2011ء میں افغانستان سرحد پر امریکی طیاروں کی بمباری سے 24پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد عمل میں آیا تھا اس اتحاد میں کالعدم سپاہ صحابہ اور کالعدم جماعت الدعوہ ایسی بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں ان تینوں جماعتوں کو عام طور پر پرو اسٹیبلشمنٹ جماعتیں تصور کیا جاتا ہے۔مولانا سمیع الحق نے ایس ایس پی اور جے یو ڈی سے اپنے اتحاد کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی تھی مگر جماعت الدعوہ جس کا سیاسی چہرہ ملی مسلم لیگ کی صورت میں موجود ہے نے انتخابی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا اس کی دووجوہات ہیں اول یہ کہ ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن الیکشن کمشن آف پاکستان نے معطل کر رکھی ہے دوسرے یہ کہ ملی مسلم لیگ اپنے بارے میں مذہبی سیاسی جماعت کا تاثر زائل کرنا چاہتی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ قومی سطح پر کسی بڑے سیاسی اتحاد کا حصہ بنے یہی وجہ ہے کہ رجسٹریشن معطل ہونے کی وجہ سے ملی مسلم لیگ کے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مولانا سمیع الحق سپاہ صحابہ اور دیگر مذہبی جماعتیں مل کر 2013ء کے عام انتخابات میں انتخابی اتحاد بھی بنا سکتی ہیں گو کہ اس متوقع اتحادکی کامیابی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں مگر اس اتحاد کو نہ صرف ایم ایم اے کے خلاف استعمال کیا جائے گا بلکہ یہ دوسری مین سٹریم پارٹیوں کے ووٹ بھی توڑے گا۔ ایم ایم اے کی توجہ بھی کے پی کے بلوچستان اور کراچی کے چند ایک حلقوں پر مرکوز ہو گی۔ جبکہ پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا کے ہزارہ کے علاقے دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے کھلا میدان ہوں گے۔ ان علاقوں میں دیگر مذہبی جماعتیں اپنا زور لگائیں گی اور چند سو سے چند ہزار ووٹروں کو اپنی طرف مائل بھی کر سکتی ہیں اس کا انحصار ان کے انتخابی بیانیہ پر ہو گا۔ ان علاقوں میں تحریک لبیک یارسول اللہ مولانا خادم حسین رضوی گروپ۔ ان سے علیحدہ ہونے والا گروپ تحریک لبیک اسلام‘ نظام مصطفی متحدہ محاذ بھی اپنے اپنے حلقوں میں ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا مگر اس کے باوجود اس خدشہ کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ جماعتیں اس بار قومیت اور مذہبی جذبات کو ابھارنے میں کامیاب نہ ہوں گی اگر مذہبی جذباتیت کو یہ جماعتیں اس سطح پر ابھارنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ جہاں جذبات کو مدمقابل کے خلاف استعمال کر سکیں تو پھر کسی حد تک تشدد کا خطرہ بھی در آئے گا اس قسم کے ماحول میںممکن ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹر بھی ان تشدد پسند سیاسی جماعتوں کی طرف متوجہ ہو جائے ۔نفرت اور تشدد ہی شدت پسند قوتوں کے ووٹ میں بڑھوتری کا باعث بن سکتا ہے جو ممکن ہے انتخابی فتح میں تو نہ بدل سکے مگر اس سے ان عناصر کی سٹریٹ پاور میں بے تحاشہ اضافہ ہو سکتا ہے اور ان حلقوں کا دبائو بھی بڑھے گا۔