لیہ سے ہم ساڑھے تین گھنٹے کا تکلیف دہ سفر طے کر کے مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور پہنچے تو شہر تو رات کے دس بج رہے تھے۔ لیہ سے مظفر گڑھ کی مسافت تو ڈیڑھ گھنٹے ہی کی تھی لیکن اس کی تحصیل علی پور تک جانے والی مظفر گڑھ روڈ پر ایسے بڑے بڑے کھڈے تھے کہ خدا کی پناہ۔ہمارے ضلعی نمائندے فاروق شیخ نے ہمیںپہلے ہی خبر دار کرتے ہوئے ازراہ ِ مزاق کہا تھا کہ آپ آ تو جائیے مگر ماضی کی تمام حکومتوں نے اب تک جتنے بھی ڈیم بنانے کے وعدے کیے ہیں وہ سب اسی سٹرک پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ سننے میں تو یہ مبالغہ ہی تھا مگر سڑک کی حالت زار اس جملے سے خوب بیان ہوتی تھی اور بڑے بڑے کھڈے چھوٹے چھوٹے ڈیم ہی کا منظر پیش کرتے تھے۔ حالت یہ تھی کہ کسی گونگے کو اگر بس میں بٹھا کر اس سڑک پر سفر کرایا جائے تو وہ بولنے لگ جائے ۔ دل میں سوچا اگر کوئی دائمی قبض کے مرض میں مبتلا ہے تو اسے یہاں ہفتے میں ایک بار ضرور آنا چاہیے یقینا اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اتنے تکلیف دہ سفر کے بعد ہم علی پور پہنچے تو ن لیگ کے امیدوار سبطین رضا بخاری سے ہمارا رابطہ اچانک یوں منقطع ہوگیا جیسے کریش سے پہلے ہوائی جہاز کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوتا ہے۔بس آخری گفتگو ان سے یہی ہوئی تھی کہ ہم پہنچ گئے ہیں۔ اس سے پہلے انہیں بھی شاید ہمارے وہاں پہنچ جانے کا یقین نہ تھا۔وہ سوچتے ہوں گے اس سڑک سے ہو کر کون علی پور پہنچ سکتا ہے۔خیر رابطہ منقطع ہونے کے بعد ان کی لوکیشن ڈھونڈنے کے وہی پرانے ٹوٹکے استعمال کیے۔ ایسے میں ہم امیدوار کے قریبی ساتھی، گارڈ ،گن مین، ڈرائیور یا سٹاف میں سے کسی سے رابطہ کر کے پوچھتے ہیں کہ صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں ۔ سبطین رضا کا کھرا بھی شہر کے عقبی حصے میں واقعے ایک محلے کا نکلا۔جس محلے کے ایک گھر میں وہ اُس وقت کارنر میٹنگ کر رہے تھے اس کوجانے والی سڑک بھی سیوریج کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ اسی سڑک کی تعمیر اور سیوریج کا وعدہ فرما رہے تھے۔ بڑے گھر کے ایک وسیع صحن میں چارپائیاں بچھا کر اہل علاقہ کے بیٹھے کا انتظام کیا گیا تھا، سبطین رضاکی تقریر جاری تھی۔جیسے ہی ہم کیمرہ اور نانٹی ٹو کا مائیک اٹھائے صحن میں داخل ہوئے ، سبطین رضانے اپنی تقریر کا رخ ہماری طرف موڑ دیا۔ تقریر ہی میں یہ اعتراف بھی کیا کہ میں نے تو نائنٹی ٹو والوں سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر یہ یہاں بھی پہنچ گئے ہیں ۔ میں نے محسوس کیا کہ ہماری وجہ سے انہوں نے تقریر کچھ زیادہ ہی لمبی کر دی۔ عام طور پر ایسے محلوں میں امیدوارصرف علاقائی مسائل پر بات کرتے اور ان کے مطالبات منظور کرنے کے وعدے کرتے ہیں ، مگر ہمیں سامنے بٹھا کر انہوں نے تحریک انصاف اور عمران خان کی ’’شان ‘‘میں لمبی تقریر کر ڈالی۔پارٹی چھوڑنے کی صفائیاں بھی دیتے رہے اور حمزہ کی شان میں قصیدے بھی کہتے رہے ۔ اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد ہمیں کہنے لگے یہ تو چھوٹی سی کارنر میٹنگ تھی، میرے ساتھ میرے جلسے میں چلیے جو بہت بڑے پیمانے پر انعقاد پذیر ہے۔ہم نے ان سے معذرت کی اورکسی نہ کسی طور انہیں وہیں گفتگو کرنے پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ آپ نائنٹی ٹو کے پروگرام کراس ٹاک میں دیکھ چکے ہیں۔ جھنگ کے ایک امیدوار جو دریا پار انتخابی مہم پر تھے، ٹریس نہیں ہو پا رہے تھے۔ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں تو ہمارے نمائندے کو ایک ترکیب سوجھی ، انہوں نے شہر کے مرکزی پولیس آفس میں ایک تعلق دار سے رابطہ کر کے معلوم کیا کہ فلاں امیدوار کے ساتھ کو ن سا پولیس اہلکار ڈیوٹی پر ہے ، پھر اس کا نمبر حاصل کیا اور پھر اس کے افسر کا حوالہ دے کر پوچھ لیا کہ ان کی لوکیشن کیا ہے ۔اس واقع میں امیدوار کا نام اس لیے نہیں بتا رہا کہ اس سے پولیس اہلکارکی شناخت ہو جائے گی۔ خیر جھنگ کے چند امیدواروں کی بات کرتے ہیں ۔ فیصل حیات جبوآنہ ن لیگ کے امیدوار تھے۔ پچھلی مرتبہ آزاد حیثیت میں جیت کرتحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔اب انہیں ایک مشکل معرکے کا سامنا تھا۔ وہ جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری کے ایک گائوں میں مہم پر تھے، کچے پکے رستوں سے جاتی یہ کوئی آدھ گھنٹے کی مسافت تھی۔ ایک چھوٹے سے تنگ راستے پر ہم انہیں سامنے سے جا ٹکرائے ، وہ گاڑی سے نکلے اور بہت گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔ ہماری بھرپور خواہش یہی تھی کہ وہ وہیں کھڑے کھڑے ہمیں انٹرویو دیں اور پھر وہ اپنی راہ لیں اور ہم اپنی ۔ لیکن فیصل جبوآنہ نے اصرار کیا کہ ہم اگلے گائوں تک ان کے ساتھ چلیں وہیں انٹرویو بھی ہوجائے گا۔ فیصل جبوآنہ ڈرائیور کو ہٹا کر سٹیرنگ پر آ گئے اور میں ان کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ فیصل حیات جبوآنہ گپ شپ والے آدمی ہیں، خوب گفتگو ہوئی۔ حلقے کی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے مجھ سے دریافت کیا۔اس وقت تک میری رائے یہی تھی کہ سخت مقابلے کے بعد وہ جیت جائیں گے۔میری رائے سن کر بھی وہ بہت خوش نہیں ہوئے ، انہیں الیکشن کی باریکیوں اور سیاست کے حالات کا بخوبی علم تھا۔صاف نظر آتا تھا کہ وہ بہت زیادہ پر اعتماد نہیں ہیں۔ ان سے انٹرویو کرنے کے بعد میں عوام میں نکلا تو اندازہ ہوا کہ حالات تو یکسر مختلف ہیں ۔ تحریک انصاف کو بیانیہ خوب سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ عوام ن لیگ کی مہنگائی سے بہت ناراض تھے۔ حلقے کے ایشوز پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ہر کوئی قومی سیاست پر اپنی رائے کا اظہار کر کے عمران خان کو ووٹ دینے کا اعلان کر رہا تھا۔ میرا جی چاہا کہ فیصل جبوآنہ کو فون کر کے اپنی رائے تبدیل کرنے کی اجازت چاہوں اور انہیں بتائوں کہ وہ جیت نہیں رہے ۔عمران خان کی ہوا طوفانی شکل اختیار کر کے ان کے خلاف چل رہی تھی مگر مروت کے باعث میں ایسا نہ کر سکا ۔نتیجہ نکلا تو اعظم چیلہ تیس ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیت چکے تھے۔