مختلف حلقوں میں جا کر انتخابی مہم کی کوریج کرنا میرے لیے ہمیشہ ہی سے بڑا دلچسپ کام رہا ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں بھی مجھے بیس میں سے سولہ حلقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کسی بھی حلقے کی انتخابی مہم پر پروگرام ریکارڈ کرتے ہوئے سب سے مشکل اور سب سے دلچسپ کام اس حلقے میں الیکشن لڑنے والے امیدوار کا انٹرویو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات کوئی امیدوار آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے ،بعض اوقات کسی کو پکڑنے کے لیے بیسیوں کلومیٹر تک اس کا پیچھا کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار تو یہ سب کرنے کے بعد بھی امیدوار انٹرویو کے لیے راضی نہیں ہوتا۔ یہ کہانی بہت دلچسپ ہے ۔ ہر امیدوار کا مزاج مختلف ہوتا ہے، اکثر اوقات انتخاب لڑنے والا امیدوار ہماری مجبوریوں سے واقف نہیں ہوتا۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ ہم نے اس کے حلقے میں مزید تین امیدواروں سے وقت لے رکھا ہے اور وہ ہمارے منتظر ہیں ۔دیے گئے وقت پہ ہم نہ پہنچے تو وہ کسی گائوں میں مہم کے سلسلے میں نکل جائے گا اور اسے قابو کرنا مشکل ہو گا۔ لہذا ہر کوئی اپنے آپ کو اہم سمجھتے ہوئے ہمیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ کوئی کہتا ہے دو گھنٹے بعد میری ایک کارنر میٹنگ ہے ،مجھے وہاں آ کے انٹرویو کریں جبکہ ہم چاہتے ہیں جس گلی میں وہ مہم پر ہے وہیں ہمیں فارغ کر دے ۔ کسی کی فرمائش ہوتی ہے جلسے کے بعد ڈیرے پر آکرانٹرویو کیا جائے جبکہ ہم چاہتے ہیں ہمیں جلسے کے دوران ہی بھگتا دیا جائے۔بعض اوقات کوئی ہمیں اپنی جگہ پر بلا کر دو گھنٹے تک بھی نہیں پہنچتا اور ہم انتظار کرتے رہتے ہیں ۔ بعض اوقات کوئی امیدوار اس لیے بھائو دکھانے لگتا ہے کہ پہلے اس کے مخالف امیدوار کا انٹرویو کرنے کیوں چلے گئے ۔ طرح طرح کے تجربات کے بعد ہم نے یہ سیکھا ہے کہ امیدوار کو صرف انٹرویو کے لیے راضی کر لیا جائے مگر اس سے ٹائم نہ مانگا جائے ،دائیں بائیں سے لی جانے والی مخبری سے بس یہ پتہ چل جائے کہ امیدوار کی موجودہ لوکیشن کیا ہے چاہے وہ پون گھنٹے کی مسافت پر ہی کیوں نہ ہوا، بس وہیں پہنچ جائیں۔ یہ طریقہ سب سے کم وقت لیتا ہے اور گھنٹوں انتظار کی زحمت نہیں کرنا پڑتی ۔ ورنہ جب امیدوار کہتا ہے میں ایک گائوں بھگتا کر آدھے گھنٹے میں آ رہا ہوں تو اسے راستے میں مزید تین گائوں پڑ جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے اگلے تین گھنٹے تک بھی بتائی گئی جگہ پر نہیں پہنچ پاتا۔ یوں تو ہر حلقے کی کہانی دلچسپ ہے مگر میں چند کہانیاں آپ کے ساتھ شئیر کرتا ہوں۔ لودھراں میں ہمیں دو حلقے کور کرنے تھے۔ ایک حلقے میں دو ہی بڑے امیدوار تھے جن کے بیچ مقابلہ تھاجبکہ دوسرے حلقے میں تحریک انصاف اور ن لیگ کے علاوہ ایک آزاد امیدوار بھی تھے جن کی جیت کے امکانات سب سے زیادہ تھے۔ پی پی 224 میںن لیگ کے امیدوار زوار وڑائچ تو ہمیں گائوں’’ایک تاچار‘‘ میں کارنر میٹنگ کے دوران مل گئے ان کے مخالف امیدوار پیرعامر اقبال شاہ کی ہمیں ٹینشن نہ تھی کہ انہیں ان کے گھر پر آسانی سے پکڑا جا سکتا تھا۔زیادہ مسئلہ پی پی 228 کے باقی امیدواروں کا تھا۔ ن لیگ کے نذیر خان بلوچ بھی ہمیں ایک گائوں میں کارنر میٹنگ کرتے ہوئے دستیاب ہو گئے ۔ تحریک انصاف کے کیپٹن عزت جاوید خان کے سٹاف نے ہمیں ان کے ڈیرے پر بلا لیا جہاں وہ دس منٹ میں پہنچنے والے تھے۔ہم رات ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ ان کے ڈیرے پر پہنچ گئے ، معلوم ہوا کیپٹن صاحب آنے ہی والے ہیں۔ ہر بیس منٹ بعد پتہ چلتا وہ بیس منٹ میں پہنچنے والے ہیں ۔ کیپٹن عزت جاوید تحریک انصاف کے وہ امیدوار تھے جن کے بارے میں اُس وقت رائے یہ تھی کہ یہ تیسرے نمبر پر رہیں گے، وہ خود بھی مانتے تھے کہ تحریک انصاف کے لیے رفیع الدین زیادہ بہتر امیدوار ہوتے اگر وہ ٹکٹ کے لیے راضی ہوجاتے ۔ خیر اب تو انہیں ٹکٹ مل چکا تھا اور وہ اپنی کیمپین کر رہے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں ان کے چھوٹے بیٹے نے ہمیں اپنی انتخابی مہم کے بارے میں تفصیلات بتائیں اور ہر تھوڑی دیر بعد تسلی دیتے رہے کہ ان کے والد بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ کیپٹن صاحب رات بارہ بجے کے بعد پہنچے ، نقصان یہ ہوا کہ باقی امیدواروں سے رابطہ منقطع ہونے لگا۔کیپٹن صاحب کا انٹرویو کرنے کے بعد پیرعامر اقبال شاہ کے گھر پہنچے تو رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا، وہ دن بھر کے تھکے ہارے بستر پہ دراز تھے، اپنی نیند کے وقت میں سے کچھ ہمیں دینے پر آمادہ تو تھے مگر ہم ان کے بیڈ روم یا ڈرائینگ روم میں ان کا انٹرویو نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان سے درخواست کی کہ کارکنوں کو اکٹھا کریں ہم الیکشن مہم کے ماحول میں انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ عامر اقبال شاہ وضع دار آدمی ہیں، انکار نہ کر سکے، دو چار لوگوں کو فون کر کے گھر کے قریب ایک ہوٹل کے باہر کارکنوں کو جمع کرنے کی ہدایت کی اور ہمیں ساتھ لے کروہاں پہنچ گئے ۔ہم نے الیکشن مہم پر پہنچنے کے مناظر کو فلم بند کیا، لوگوں سے گلے ملتے،ووٹ ڈالنے کی درخواست کرتے اور ان کے ساتھ چائے پینے کی فوٹیج بنائی ،ان کا انٹرویو کیا اور اگلے امیدوار پیر رفیع الدین کا پیچھا کرنے لگے۔ پیر رفیع الدین بخاری پچھلا الیکشن ن لیگ سے لڑے تھے، اس بار انہیں ٹکٹ نہ ملا تو آزاد حیثیت میں کھڑے ہو گئے۔شام سے وہ ہم سے رابطے میں تھے مگر ہمیں ہی فارغ ہوتے رات کے ڈھائی بج گئے ، ڈھائی بجے انہوں نے فون تو اٹھا لیامگر رات کے اُس پہر انہوں نے انٹرویو دینے سے معذرت کر لی۔ ہم نے بہت اصرار کیا کہ محض دس منٹ درکار ہیں پھر ہمیں اسلام آباد نکلنا ہے ،انہوںنے مگر نہایت شائستہ انداز میں کہا آپ کو میرے گائوں پہنچنے میںایک گھنٹہ لگ جائے گا، تھکن اور نیند سے میری حالت خراب ہے ، ابھی کے لیے معذرت چاہتا ہوں ، وعدہ رہا کل دن میں آپ کو خود فون کروں گا۔ (جاری ہے)