مَثَل مشہور ہے کہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں! امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا میں عبادت گاہوں کو، کھولا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ایک انتباہ، ریاستوں کے گورنروں کے لیے جاری ہوا ہے کہ اس میں کوئی رکاوٹ، برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہاں بحث اس سے نہیں ہے کہ ڈاکٹروں کی ساری تنبیہوں کو، نظر انداز کرنا، کتنا مْضر، بلکہ مہلک ہو سکتا ہے، کہنا یہ ہے کہ یہی بات، اگر کسی "غیر مہذب" مْلک کے حکمران نے کہی ہوتی تو اسے مثالیں، مغربی ممالک کی دی جاتیں کہ ع دیکھ! اس طرح سے کہتے ہیں سخنورسہرا افسوس! صد افسوس! مرعْوبیت، شکست خوردگی اور سپر انداختگی۔ یہ سارے مرحلے، ہماری قوم نے طے کر لیے ہیں۔ ع پستی کا، کوئی، حد سے گزرنا دیکھے! رویت ِہلال ہی کو لیجیے، سائنس کے عاشق، یوں بغلیں بجا رہے ہیں، جیسے یہ "معرکہ ء مذہب و سائنس" تھا! مغرب سے جو شے نکلتی ہے، اسے ہم، سَر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں۔ جس راہ کو مغربی اختیار کرتے ہیں، اس پر چلنا، ہمارے لیے اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔ ہمارے شاعر کی نظر اور پیش بینی کو سلام! چیز وہ ہے، جو بنے یورپ میں بات وہ ہے، جو پائینئر میں چھَپے اور انجام ِکار؟ بھْول جائیں گی ترقی خواہیاں، لاحول تک تم کو یہ "تہذیب" بیچے گی، براز و بول تک مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کی موجودہ حالت کو سمجھنے کیلئے، آگے بڑھنے سے پہلے، ذرا پیچھے نگاہ کرنا ہو گی۔ بحیثیت ِملت، ہماری کسمپرسی کا پہلا بڑا سبب، بادشاہی نظام ہے، جس کو انسانیت سے کوئی علاقہ نہیں۔ ایک انسان کا، اپنے ہم جنسوں سے جْدا ہو کر، تخت نشین ہو جانا، چہ چہ! اس نظام سے، حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ یا اورنگزیب عالمگیر جیسے درویش منشوں کا اْبھرنا، استثنائی مثالیں ہیں اور آٹے میں نمک کے مصداق! لیکن اس کا متبادل نظام، جو آج رائج ہے، سچ یہ ہے کہ بادشاہت سے کچھ بڑھ کر ہی ضرر رساں ہے! کہا جاتا ہے کہ الناس علی دین ملوکہم۔ (عوام، حاکموں کی پیروی کرتے ہیں) بادشاہی نظام میں، ممکن ہے کہ سَو کے بعد، ایک آدھ اورنگزیب برآمد ہو جائے، اور عوام کو، حتی الوسع، صحیح ڈھرے پر چڑھا جائے۔ مگر جمہوری نظام، ایک ایسی عمارت کی طرح ہے، جو قدم بہ قدم اور زینہ بہ زینہ، تیار ہی تخریب سے ہوتی ہے! مثلا، "عوام کے نمائندے" کروڑوں اربوں روپے خرچ کر کے، دست ِسوال دراز کرتے ہیں کہ مجھے اپنی خدمت کرنیکی سعادت بخشیے! سبحان اللہ! پھر یہی "نمائندے" اپنے "بہترین" ساتھی کو منتخب کرتے ہیں! اس سے بڑا فریب، کم ہی دیا گیا ہو گا۔ ایسا کھْلا ہوا دھوکہ، کم ہی کھایا گیا ہو گا۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے، اور بظاہر مردان ِمعقول، مغربی ملکوں میں قدم رکھتے ہی، ساری چوکڑیاں بھول جاتے ہیں۔ آنکھوں کے کھْلنے اور چندھیا جانے میں، بڑا فرق ہے۔ بر ِصغیر کی حد تک، ایک پوری اْمت کی آنکھوں پر مرعْوبیت کی عینک، جن بزرگوار نے چڑھائی تھی، ان کے اصلی حالات پڑھ کر، حیرت ہو جاتی ہے! تحقیق کے میدان والے، سیکھیں مْنیر احمد صاحب مْنیر سے اور ضیا ء الدین صاحب لاہوری سے۔ مْنیر صاحب نے ناگفتہ تاریخی واقعات اور خصوصا قائدیات کو اپنایا ہے۔ ضیاء صاحب نے، جن بزرگوار کا اوپر ذکر ہوا ہے، ان کی واقعی شبیہ کاغذ پر اتار دی ہے۔ یہ تصویر ِکاغذی، تیار کی گئی ہے خود بزرگوار ہی کی تحریروں اور تقریروں سے۔ اس کی کوئی دوسری مثال، کم از کم اردو میں تو نظر سے نہیں گزری۔ یہ کتابیں، مغرب زدہ ہر پاکستانی کو پڑھائی جانی چاہئیں۔ بزرگوار سے، بے شک، کچھ کام، اچھے بھی سرزد ہوئے ہیں اور نیتوں کے حال تو، صرف خْدا جانتا ہے۔ لیکن ایسی "نیک نیتی" کو کیا کہیے، جو خلوص سے گڑھے میں دھکیل دے؟ ایسی دوا کو کیجیے جو چھوٹی بیماری کو ختم کر کے، زیادہ بڑی بیماری پیدا کر دے! پاکستانی مسلمانوں کا صحیح مْصلح، وہ ہو گا، جو ان بزرگوار کا پانی اْتار سکے۔ پدرم سلطان بْود کا وِرد، ہزار بْرا سہی، اپنے لائق ِتکریم اور تعظیم اسلاف کی نفی اور ان کے کارناموں کی تخفیف، اس سے کہیں بدتر ہے! لیکن اکبر کو کیا اْبھاریں(صرف) مایوس ہی نہیں ہے اتنا مٹا کہ مٹنا، محسوس ہی نہیں ہے ٭٭٭٭٭ رمضان اور عید بندہ ہمان بِہ، کہ بتقصیر ِخویش عْذر بہ درگاہ ِخْدا آوَرَد ورنہ، سزاوار ِخداوندیَش کَس نتواند، کہ بجا آورد (بہتر ہے وہی انسان، جو اپنی خطائوں پر شرمسار ہو، خْدا سے معذرت چاہے۔ ورنہ خْدا کی رحمتیں تو، بہرطور اتنی بے حساب ہیں کہ ان کا صحیح شکر ادا کرنا بھی ممکن نہیں!)ا اگلے زمانے کے دلی والے، رمضان کے پہلے دس دنوں کو رواں، دوسرے دہے کو دَواں اور آخری دہائی کو پَراں قرار دیتے تھے۔ واقعی! رمضان آیا اور گزر گیا۔ مبارک ہیں وہ لوگ، اس کے فیوض و برکات سے، جو بہرہ ور ہوئے۔ مجھ جیسے، دلی ہی کے محاورے میں، صرف فاقے کاٹتے رہے! ہاں! اتنا ضرور ہے کہ گناہوں، اور لغزشوں اور خطائوں کی رفتار، شاید کچھ کم ہو گئی ہو۔ شیخ سعدی نے ایک ایسے شخص کا حال لکھا ہے، جو خانہ ء خدا کے رْوبرْو، روتا اور کہتا جاتا تھا۔ می نگویم کہ طاعتم بپذیر قلم ِعفو، بر گناہم کش (اے مالک! میں کیا اور میری عبادت کیا، تو بس میرے گناہ معاف کر دے)ا خْداے واحد کی خْدائی اور کِبریای کا اقرار، اور اپنی بندگی اور ناچیز ہونے کا اعلان! اس سے اچھی دعا، اَور کیا ہو گی؟ یہ جذبہ، کاش! ہر مسلمان میں، پیدا ہو جائے، بیدار ہو جائے! جو سَر، صرف خْدا کے سامنے جھْکے، ممکن ہی نہیں کہ دنیا، کوئی سودا اس میں پیدا کر سکے! یہ ایک سجدہ، بقول ِاقبال ع ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات اور بد بخت، کَسی کہ سر بتابد زین در، کہ در ِدگر نیابد (بد بخت ہے وہ، جو اس دَر سے منہ موڑے، جس کے سوا، کوئی دوسرا دَر، حقیقی نہیں ہے!) جس کی امیدیں، کسی انسان، یا کسی نظام سے لگی ہوں، کسی دَر بند نہیں رہتا۔ ایک کے بعد دوسرا دروازہ۔ یہ راہ، پستی کی بھی ہے اور ذلت کی بھی! دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی! یہ وہ بْت سازی ہے، جس میں بْت پرستی بھی شامل ہے۔ اور بْت پرستی کا انجام معلوم!