ایک طرف غضب کا پروپیگنڈا کہ مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر الیکشن جیت کر اقتدار میں آ رہی ہے، دوسری طرف نگران حکومت پر غصہ کہ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے میں ناکام ہے،آدمی کس بات کومانے۔ مرکز اور پنجاب میں نگران حکومتوں کی تشکیل مسلم لیگ کے مشورے سے ہوئی اور یہ حکومتیں اس فارمولے کے تحت وجود میں آئیں جو 2013ء میں اپنایا گیا۔ پنجاب کی نگران حکومت کو یہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ وہ شریف خاندان کے ہاتھ کی چھڑی، جیب کی گھڑی نہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی تمام تر مسکینی،نرم مزاجی اور علمی شرافت کے باوجود ماضی کی حکمران جماعت کی دھونس، دھاندلی کے بالمقابل لوہے کے چنے ثابت ہو رہے ہیں۔ شریفوں نے اپنے حامی میڈیا گروپوں، کالم نگاروں، تجزیہ کاروں، اینکرز اور سوشل میڈیا مجاہدین کے ذریعے غریب پروفیسر کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اسے دبائو میں لانے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا مگر کوئی دال نہ گلی۔ 13جولائی کی ’’ایئرپورٹ‘‘ چلو ریلی کی ناکامی کا ملبہ وزیر اعلیٰ پنجاب پر ڈالا گیا مگر دو تین روز بعد خواجہ آصف نے برملا یہ اعتراف کیا کہ ہمارا ایئرپورٹ جانے کا ارادہ تھا نہ ہم نے کارکنوں کو اس کی کال دی تھی۔ پروفیسر کی حکومت سے ایئرپورٹ کو جانے کی مفاہمت کس نے کی؟ سربستہ راز ہے مگر بھید کھل جانے کے باوجود اپنی ہر ناکامی کا ملبہ نگران حکومت پر ڈال کر 25جولائی کے انتخابات کو مشکوک بنانے کی سعی ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے اپنی انتخابی ناکامی کی داغ بیل اس روز ڈال دی تھی جب میاں نواز شریف نے اپنے عوام، قریبی ساتھیوں اور کارکنوں کے مزاج کے برخلاف فوج اور عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کی۔ سیاستدان عوام کو بے وقوف سمجھتے اور بناتے ہیں۔ سادہ لوح عوام اکثر اوقات بے وقوف بنتے بھی ہیں مگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے جس حد تک انہیں کم فہم اور کودن سمجھا اتنے وہ ہیں نہیں۔ امریکہ اور بھارت کی شہ پر پاکستان میں بھڑکتی دہشت گردی کی آگ بجھانے میں مصروف پاک فوج اور بے تحاشہ کرپشن و بری حکمرانی کے سبب معاشی دیوالیہ پن کے خطرے سے دوچار ریاست کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کے لئے جہد آزما عدلیہ کے خلاف مہم چلانے کا فیصلہ کر کے میاں صاحب نے عوامی دانش کو آزمائش میں ڈالا۔ ہرگز نہ سوچا کہ عوام سادہ لوح سہی مگر اتنے بھی نہیں کہ وہ پاک فوج کے خلاف امریکہ، بھارت اور میاں صاحب کے بیانئیے میں مماثلت تلاش نہ کر سکیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ قدرتی آفات، غیر ملکی جارحیت اور دہشت گردی کے موقع پر ان کی مدد کے لئے پاک فوج ہی بروئے کار آتی ہے اور سنگدل اشرافیہ اور سفاک انتظامی مشینری کے مظالم سے جس حد تک ممکن ہو آزاد و فعال عدلیہ ہی بچاتی ہے۔ حکمران تو بیشتر صورتوں میں خود ستمگرہوتے ہیں۔ عراق اور لیبیا کو تباہ کرنے کے لئے امریکہ نے آغاز کار فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے کیا۔ آج کل سوشل اور محدود پیمانے پر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر جو منفی پروپیگنڈا پاک فوج کے خلاف ہو رہا ہے، بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں صدام حسین اور قذافی کی فوج کے خلاف ہوا۔ الزام تراشی اور کردار کشی کی اس مہم کا مقصد زمین ہموار کرنا اور آخری حملے سے قبل فوج کو عوامی ہمدردی سے محروم کرنا تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کل تک حوالداروں کے بوٹ پالش کرنے اور جی ایچ کیو کے طواف کرنے والے سبزے اور پاک فوج سے ازلی نفرت کرنے والے سرخے ایک صفحے پر ہیں اور دونوں کا ہدف فوج و عدلیہ ہے۔ میاں صاحب کے اس فوج و عدلیہ مخالف بیانیے سے مسلم لیگ کے محب وطن کارکنوں اور وڈیروں کو یقین ہوا، اعتبار آیا کہ شریف خاندان کا اب اقتدار میں حصہ ہے نہ سیاست میں مستقبل جوجیل یاترا نے یقین کو حق الیقین میں بدلا اور ان بیانات نے سونے پر سہاگے کا کام کیا کہ میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی قید تنہائی سے دوچار ہیں۔ یہ صورتحال نگران حکومت کی پیدا کردہ ہے نہ پروفیسر حسن عسکری قصور وار۔ مسلم لیگ(ن) کے امیدوار نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ بڑے میاں نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا، بیٹھے بٹھائے ناکامی سے دوچار کر دیا۔ حالات اتنے برے نہ تھے جو محاذ آرائی اور تکبر نے بنا دئیے۔ مسلم لیگ کے پاس منفی پروپیگنڈے کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ کم از کم انتخابی شکست کا کوئی برا بھلا جواز پیش کیا جا سکے۔ خدا کا شکر ہے کہ بائیکاٹ کا آپشن باقی نہیں رہا اور وقت پر انتخابات ہوتے نظر آ رہے ہیں تا ہم پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے نے بھی جس طرح مسلم لیگ کے ساتھ مل کر انتخابات کی شفافیت اور نگران حکومتوں کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھانے شروع کیے ہیں اس سے ذہن میں ایک اور خطرناک منظر نامہ ابھرتا ہے۔ برادرم ہارون الرشید نے اپنے کالم میں نئے بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے جو اس صورت میں جنم لے سکتا ہے کہ 25جولائی کو انتخابی شکست سے دوچار جماعتیں اچانک دھاندلی کا شور مچا کر احتجاجی تحریک کا اعلان کریں۔ نگران حکومتوں پر عدم اعتماد، فوج اور عدلیہ کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم اور انتخابات کی شفافیت پر مسلسل انگشت نمائی اور سردار ایاز صادق اور کئی دوسرے رہنمائوں کے ذریعے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مابین خفیہ رابطوں کا اس کے سوا مقصد نظر نہیں آتا کہ اگر انتخابی نتائج ان کی مرضی کے خلاف اور عمران خان کے حق میں نکلیں تو انہیں ماننے سے انکار کر دیا جائے ، 1977ء کی طرح پولنگ سٹیشنوں سے واپس آنے والے ووٹروں اور کارکنوں کو احتجاجی تحریک کا ایندھن بنا دیا جائے، فی الحال یہ اندیشہ ہے مگر اندیشے کو حقیقت میں بدلتے دیر کتنی لگتی ہے اور پاکستان کی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی سیاست میں دشمنیاں دوستیوں اور دوستیاں سیاسی اتحادوں میں بدلنا کون سا مشکل ہے۔ 13جولائی کو نگران حکومت، لاہور انتظامیہ اور مسلم لیگی قیادت کے مابین مفاہمت کا ایک حصہ شاید یہ بھی ہے کہ تصادم کا خطرہ ٹال کر انتخابی عمل کو آگے بڑھایا جائے لیکن اگر انتخابی نتائج مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی یا میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے لئے ناقابل قبول ہوں تو ’’نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ کے مصداق دونوں شخصیات اور جماعتوں کی مایوسی اور بے یقینی کوئی بھی رخ اختیار کر سکتی ہے جبکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ عمران خان اقتدار میں آ کر احتسابی عمل کو روکیں گے نہ دور دور تک کسی نئے این آر او کا امکان ہو گا۔ نئی، نسبتاً کلین، پرعزم اور ہر سطح پر احتساب کے حوالے سے یکسو حکومت کو پیشگی عدم استحکام سے دوچار کر دیا جائے تو مخالفین کے پوبارہ ہیں۔ عمران خان کی حکومت ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ چلنے کی باتیں بھی اسی تناظر میں ہو رہی ہیں لیکن اس حکمت عملی میں دو چار سخت مقام آتے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ دھاندلی کے خلاف تحریک کا انجام 1977ء سے مختلف نہ ہو۔ ممکن ہے مخالفین کا مطمح نظر بھی یہی ہو کہ ہم نہیں تو کوئی اور کیوں؟ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ لیکن عمران خان کے لئے کھودے جانے والے گڑھے میں کوئی اور بھی گر سکتا ہے اور مارشل لاء لگوانے کی خواہش فوج کی مزید مضبوطی اور بھارت و امریکہ کے گماشتوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہو سکتی ہے۔ تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ۔ فوج اور نگران حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کے سرخیل وہی ہیں جو امریکہ کے سارے جائز و ناجائز مطالبات مان کر پاکستان کو خطے میں بھارت کا تابعدار وباجگزار بنانے کے حق میں ہیں اور جنہیں ساری خامیاں پاکستان اور خوبیاں بھارت میں نظر آتی ہیں بدقسمتی مگران کی یہ ہے کہ پاک فوج کی کمزوریوں اور خامیوں سے واقف قوم ان کا بیانیہ قبول کرنے کے لیے تیار ہے نہ بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرنے پر آمادہ۔ امریکہ و یورپ کے بد باطن عناصر، بھارتی ایجنٹوں نے زور لگا کر دیکھ لیا اب محبان نواز شریف کی باری ہے۔ چند میڈیا گروپ اور زرخرید قلمکار ان کی ڈفلی بجاتے رہیں گے مگر کامیابی؟ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ چند روزہ نگران حکومت تو بالآخر گھر کو سدھار جائے گی لیکن ناکامی ان کا مقدر ہے جو زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے محض الزام تراشی اور کردار کشی کے بل بوتے پر پاکستان کے اقتدار و وسائل پر دوبارہ تسلط کے لئے بے تاب ہیں۔