لاک ڈائون کے دوران اور بہت کچھ کے ساتھ، پی ٹی وی کی کچھ پرانی پروڈکشنز بھی دیکھنے کا وقت ملا، جن میں 80 کی دہائی کا ایک ڈرامہ بھی تھا، اسکی پہلی قسط دیکھی تو جیسے اس ڈرامے کے کرداروں نے میرا دل موہ لیا ہو۔ ساری اقساط نجی ویب سائٹ پر موجودنہ تھیں، سو کئی اور ویب سائٹس پر چھان پھٹک کرنی پڑی۔ بڑی مشکل سے مکمل ڈرامہ دستیاب ہوا۔ پی ٹی وی کے اس کلاسیک نے مجھے عجب خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ یہ سوچ سوچ کر حیران ہوتا رہا ہوں، کہ نجانے تخلیق کا ر نے اس ڈرامے کے ایک ایک کردار کو کتنا کتنا عرصہ سوچا ہوگا: خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مصرعئہ تر کی صورت بہرحال، یہ امجد اسلام امجد صاحب کا لازوال ڈرامہ ''وارث'' ہے۔ ڈرامہ نویسی کی تاریخ کوئی سو دو سو سال پر محیط نہیں،یہ کئی صدیوں پر پھیلاہوا قصہ ہے۔ ادب کی کئی شاخوں میں، جہاں ناول، شاعری اور نثر نگاری ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے، وہیں ڈرامہ کی اہمیت بھی کسی سے کم نہیں۔ ڈرامہ کی قدیم ترین تاریخ یونانی سلطنت سے ملتی ہے، جہاں ارسطو اورسو فوکلز جیسے فلسفیوں نے اس فن پر بہت کام کیا۔ ارسطو کی لکھی کتاب''پوئیٹکس'' ڈرامہ کے طالب علموں کے لیے کورس بک کی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں بڑی تفصیل کے ساتھ ارسطو نے ڈرامہ لکھنے اور اس کے محرکات کو قلم بند کرنے کے حوالے سے تفصیلًا بات کی ہے۔ وقت کا پہیا چلتا ہے تو اِس فن کا عروج ہمیں انگلستان میں نظر آتا ہے جب ولیئم شیکسپیئر جیسا بڑانام اور اس کے بڑے کھیل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ شیکسپیئر کو ٹریجڈی(المیہ ناٹک/کھیل) لکھنے کا بے تاج بادشاہ بھی مانا جاتا ہے۔ ڈرامہ نگاری کا فن اردو زبان کا جاما پہنتا ہے، تو امتیاز علی تاج کا شہرہ آفاق کھیل ''انارکلی'' مطالعہ کو زینت بخشتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے ڈرامہ میں المیہ لکھنے کے دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک اریسٹوٹیلین (Aristotelian)، جو ارسطو کے نظریہ کا ترجمان ہے؛ اور دوسری شیکسپیئرئن، جوشیکسپیئر کی المیہ کے حوالے سے سوچ کی عکاس ہے۔ یوں تو کسی کھیل میں دونوں ہی نظریات المناک واقعات کی روداد سناتے ہیں، البتہ فرق یہ ہے کہ بقول ارسطو، کوئی بھی المناک حادثہ اس لیے واقعہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ وہ لاکھ اس سے بچنے کی کوشش کرلے،بچ نہیں سکتا۔ دوسری جانب شیکسپیئر کے لکھے کھیل اس بات کے قائل ہیں کہ انسان خود کسی ایسی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے، جس کے سبب سے وہ اپنی جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اور اکثر و بیشتر انسان کسی ایسی حرکت کا مرتکب تب ہوتا ہے، جب وہ کسی شے کے پیچھے جی جان سے پڑ جائے، یعنی over ambitious" "ہوجائے۔ شیکسپیر کا ڈرامہ ''میکبیتھ'' (Macbeth) اسی سوچ کا ترجمان ہے۔ شیکسپیئر پر مختلف تبصرے اور تجزیے؛ اور بالخصوص میکبتھ کو پڑھنے کے بعد ،جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ انسان کا ایک دائرہ کار ہے۔ اور انسان کے بس میں یہی ہے کہ وہ اُس دائرے میں رہتے ہوئے محنت یا کوشش کو بجا لاتا رہے، اور جو شے اس کے دائرے سے باہر ہے، اسے قدرت پر چھوڑ دے۔ کیوں کہ جب انسان ضرورت سے زیادہ کسی چیز کو حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے، تو کہیں نہ کہیں اس کے اندر ہرحقیقت کو چیلنج کرنے کی سپرٹ جاگ جاتی ہے۔ ایسی ہمت انسان کو اپنے دائرے سے باہر نکلنے پر اکساتی ہے۔ اور جب وہ اپنی حیثیت سے بڑ ھ کرکچھ کرنے لگتا ہے، تو قدرت اسے جھنجھوڑتی ہے، اور اسے اسکے دائرہ کار میں واپس یوں دھکیلتی ہے، کہ وہ تاب نہ لاتے ہوئے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتا ہے۔ عموما ہمارے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ شاید ڈرامہ صرف اور صرف ایک تفریح ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ آج سے کئی صدیاں قبل جب یونان کے ایمفی تھئیٹر میں، ہزاروں کے مجمع کے سامنے کسی کھیل (ناٹک) کو پیش کیا جاتا تھا، تو اس کی ایک بڑی وجہ سوسائیٹی میں پنپتی سوچوں میں uniformity، یعنی ہم آہنگی لانا بھی تھا۔ جب کسی معاشرے میں کئی مختلف سوچیں جنم لینے لگتی ہیں تو وہ polarisation کا شکار ہوجاتی ہے۔ یعنی کہ سوچوں کا اختلاف جب کسی خطے میں شدت اختیار کر جاتا ہے، تو اس کے باعث وہاں اتحاد ختم ہونے لگتا ہے۔ ایک کھیل پیش کرکے، جب کئی لوگ اسے اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے ہیں، تو رعایا کے ہاں ایک جیسے تصورات اور خیالات جنم لینے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں اتفاق اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے پھر سٹیٹ عوام الناس میں ایک جیسے بیانیے کو شکل دینے کے لیے ڈرامہ نگاروں کو اعتماد میں لیا کرتی تھی۔ بالکل اسی طرح انگلستان میں بھی شیکسپیئر اور ان کے ہم پلہ ڈرامہ نویسوں کو برسرِ اقتدارقوتوں کا مکمل اعتماد حاصل رہتا، کیوں کہ یہ رعایا میں حکومت اور ان کے بیانئے کے ہمیشہ علمبردار رہے، اور یہ اپنے ڈراموں میں صحیح اور غلط، گناہ اور ثواب کا بالکل وہی تصور پیش کرتے، جو کہیں نہ کہیں ریاست اپنی عوام کے خیالات میں دیکھنا چاہتی تھی۔ امجد صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ وارث، جاگیردارانہ نظام اور اس کے مظالم کا عکاس ہے۔ اور یقینا یہ نظام اسی دور کا ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ بھی رہا اور کہیں کہیں اب بھی ہے۔ ایک بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ اُس دور کے جتنے بھی ڈرامے دیکھ لی جیئے ان میں آپ کو قدرت کی طاقت کا عنصر ضرور ملے گا۔ اور شاید یہی سب سے بڑا فرق ہے، جو آج کے ڈراموں اور گزرے ہوئے وقتوں کے ڈراموں میں ہے۔ وہ ڈرامے، اندر کے انسان کو مضبوط کیا کرتے تھے۔پرانے لوگ، ادیب، فنکار بھی اندر سے اتنے ہی پختہ تھے، کیوں کہ انہوں نے اندر کے انسان کو بنانے سنوارنے پر توجہ دی، اور اسی کا سبق دیا، نہ کہ باہر کے بناوٹی پن کو سب کچھ سمجھا۔ بقول فیصل ہاشمی: جنہوں نے ساری گرہیں کھول کر دکھائی تھیں نفیس ہاتھ تھے اور لوگ تھے عجب سے کوئی