یہ ۱۰۵؁ھ اور ولید ابن عبدالملک کا عہد تھا ، جب اسلامی فوجیں ثمرقند میں فاتحانہ داخل ہوئیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ثمرقند اسلامی ریاست کا حصہ بنادیا گیا ، عدلیہ سمیت تمام محکمے وجود میں آ گئے ۔ ابھی مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ ثمرقند کے مقامی مذہبی پیشوا ،اسلامی عدالت کے رو برو پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ثمرقند میں قا ئم ہونے والی اسلامی حکومت خود اسلامی قانون کی رو سے ہی ناجائز اور غیر قانونی ہے، لہذا عدالت اس حکومت کو ختم کر کے مسلم فاتحین کو ثمرقند سے نکل جانے کا حکم جاری کرے ۔ قاضی نے ا نہیں اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرنے کو کہا تو ان کی پہلی ہی دلیل آخری اور حتمی بھی ثابت ہوئی ۔ مذہبی پیشوائوں کا استدلال تھا کہ اسلامی قانون کے تحت مسلم افواج کے کمانڈر پر لازم ہے کہ کسی ریاست پر حملہ کرنے سے قبل وہ دعوت اسلام دے اگر یہ دعوت رد کردی جائے تو پھر وہ جزیئے کی شرط کے ساتھ سرنڈر کا حکم دے اگر یہ مطالبہ بھی رد کردیا جائے تو تب مسلم افواج اس ریاست پر حملہ آور ہو سکتی ہیں ۔ قاضی نے تصدیق کی کہ بالکل ایسا ہی ہے تو ان مذہبی پیشوائوں نے انکشاف کیا کہ فتح ثمرقند کے موقع پر مسلم فاتحین نے اس قانون کو مکمل طور پر نظر اندز کیا، نہ تو دعوت اسلام دی گئی اور نہ ہی جزیئے کی شرط کے ساتھ سرنڈر کا مطالبہ کیا گیا۔ قاضی کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا اور اس نے فوری طور پر ثمرقند کے فاتح نامور سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کو عدالت میں طلب کرلیا ۔ قاضی نے قتیبہ بن مسلم سے صرف ایک سوال کیا ، کیا واقعی ایسا ہی ہوا ہے جیسا یہ مذہبی پیشوا بیان کر رہے ہیں ِـ ؟۔ قتیبہ بن مسلم نے ان کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کچھ وضاحتیں اور وجوہات پیش کرنی شروع کردیں ، عدالت نے تمام وضاحتیں مسترد کرتے ہوے پہلی ہی سماعت پر تاریخ ساز فیصلہ صادر کردیا ۔ مسلم عدالت نے ثمرقند پر اسلامی حکومت کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس کے خاتمے کا حکم دیا بلکہ ثمرقند کی فتح کے دوران یا اس کے بعد ثمرقند میں داخل ہونے والے ہر مسلمان کو بھی بلا تاخیر ثمرقند سے نکل جانے کا حکم دیا۔ فیصلہ سناتے ہی قاضی نے اپنا قلمدان سمیٹا اور کمرئہ عدالت خالی کردیا۔ مسلم لشکر نے ثمرقند سے کوچ شروع کیا تو شہر کے باہر وہی مقامی مذہبی پیشوا ایک بار پھر قاضی اور قتیبہ بن مسلم کے سامنے آگئے اور ان کے گھوڑوں کی لگامیں پکڑ کر کہا، ثمرقند نے اپنی تاریخ میں ایسے منصف فاتح کبھی دیکھے اور نہ ہی مستقبل میں کبھی دیکھ سکے گا، خدا را ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں اب یہ ہماری ہی خواہش ہے کہ آپ ہی ہم پر حکومت کریں۔ اور یوں ثمرقند پر اسلامی حکومت قائم ہو گئی ۔ یہی واقعہ اہل ثمرقند کے قبول اسلام کا سبب بنا اور جو کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار نہیں اخلاق سے پھیلا اس میں ثمرقند کے اس واقعے کا حوالہ بھی بہت اہم ہے۔ اس واقعے میں سبق نہیں اسباق ہیں، پہلا سبق یہ کہ عدالت کے سامنے قتیبہ بن مسلم جیسا بڑا جرنیل کھڑا تھا اور کہیں بھی یہ چہ میگوئیاں نہیں تھیں کہ عدالت نے سپہ سالار کو طلب کرنے کی ــ گستاخی کردی ہے اب اللہ ہی رحم کرے !۔ دوسرا سبق یہ کہ عدالت نے قتیبہ بن مسلم کے اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فتح ثمرقند پر ہی خط تنسیخ کھینچ دی ، اتنے بڑے فیصلے کے باوجود قتیبہ بن مسلم کا رد عمل یہ نہ تھا کہ ’’کسی فرد یا ادارے کو ملکی مفاد کے حتمی تعین کا حق نہیں‘‘ کیونکہ قتیبہ بن مسلم کو پوری طرح شعور حاصل تھا کہ جب سوال انصاف کا ہو تو پھر ملکی مفاد کی حیثیت عنقاء سے زیادہ نہیں ہوتی ، پھر تو صرف انصاف ہی مقدم ہوتا ہے چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں ۔ تیسرا سبق یہ کہ اتنا بڑا فیصلہ ہونے کے باوجود اداروں میں تصادم کا سوال تو درکنار تصور تک نے جنم نہ لیا اور قاضی و قتیبہ بن مسلم اسلامی لشکر کے ساتھ شانہ بشانہ ثمرقند سے نکلے۔ چوتھا سبق یہ کہ اداروں کی بالادستی کے حوالے سے کسی تنازع نے بھی جنم نہ لیا ، بلکہ اس امر پر قومی اتفاق رائے دیکھا گیا کہ انصاف کیلئے عدالتی بالا دستی اسقدر لا محدود ہے کہ وہ حکومت ہی نہیں ریاست کے خاتمے کا بھی فیصلہ کر سکتی ہے کیونکہ اس فیصلے میں ریاستی جغرافیہ تبدیل ہوگیا تھا۔ ثمرقند کے اس واقعے میں ہمارے اہل قانون و انصاف کیلئے بھی ایک بہت بڑا سبق موجود ہے۔ وہ یہ کہ ثمرقند کی اس عدالت نے ہمارے عہد کے کچھ مخصوص کیسز کی طرح لمبی،لمبی تاریخیں دیں اور نہ ہی کوئی بار بار کی مہلت ، اسے اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ حکومت پانچ سال کی مدت پوری کرتی ہے یا نہیں ، اس کے پیش نظرصرف انصاف تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جغرافیے پر اپنی ریاست کے خاتمے جیسا حیران کن فیصلہ لکھتے ہوئے بھی اس جج کے قلم نے مزید غور کی مہلت طلب نہ کی۔ اس نے انصاف کرنا تھا ، اس نے انصاف کرڈالا۔ ایسے سوالات گستاخی کے زمرے میں آتے ہیں جن کے جوابات لبوں پر تبسم پیدا کرنے کے امکانات رکھتے ہوں۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ ہم نے میمو کیس میں عدالتی تحمل دیکھا تھا، اور نتیجتاً ہم نے حسین حقانی کو ملک سے باہر دیکھا۔ ہم نے اصغر خان کیس میں کوئی عدالتی تحمل نہیں دیکھا، سو نتیجہ بھی مختلف دیکھا۔ کتنا اچھا تھا ثمرقند کا وہ قاضی جس کے پاس کوئی ترانہ عدل تو نہ تھا ، البتہ ’’انصاف سب کیلئے ‘‘ تھا ! ! !