اک سمندر ہو کوئی اور وہ لبِ جُو آئے کیوں نہ اظہار کو ان آنکھوں میں آنسو آئے خوش گمانی نے عجب معجزہ سامانی کی اب ہمیں کاغذی پھولوں سے بھی خوشبو آئے کاغذی پھولوں سے مجھے اپنا دوست کمال جو آج کل انگریزی اخبار میں ہے یاد آیا کہ انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں وہ ہمیں اپنے استاد مہدی حسن کی غزل سناتا۔یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا۔ تو کمال کر دیتا۔ مگر غالب نے اس کاغذ سے فائدہ اٹھا کر جو کہا تو وہ اس دیوان کا پہلا شعر قرار پایا: نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کیا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا یہ ایک بہت بڑا شعر ہے اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے میں اگر اس حوالے سے مختصراً کچھ عرض کر دوں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ کہتے ہیں ایران کے دربار میں بادشاہ کے سامنے جو سائل آتا وہ کاغذی لباس زیب تن کرتا۔ ایک عجز کی علامت بادشاہ تو زرق برق پوشاک میں ہوتا ہے غالب نے اشارہ انسان کی طرف کیا ہے کہ وہ بھی کاغذ کی طرح نا پائیدار اور عارضی۔ ویسے یہ عارضی لفظ بھی شاید عارض و رخسار سے ہے کہ حسن کتنی کو دیر رہتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی کاغذی پیرہن کی۔ انسان بھی فریاد کناں ہے اور وہ شاہکار تو خالق کا ہے۔ بات کچھ زیادہ ہی ادب کی طرف نہ چلی جائے کہ بات ہمیں خوش گمانی کی کرنا تھی اور ایسی خوش گمانی کہ کاغذی پھولوں سے خوشبو آنے لگے اس کا احساس مجھے اپنے ایک پیارے سے کالم نگار کا کالم پڑھ کر ہوا کہ انہوں نے بڑی فراخدلی کے ساتھ اور یقین محکم سے بیان کر دیا کہ حکومت کی طرف سے کراچی کو ملنے والا گیارہ ارب کافی تبدیلیاں لائے گا اور فلاں فلاں تعمیری کام ہونگے ۔ویسے ٹھیک ہے دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ عبداللہ طارق سہیل صاحب نے تو اپنے طنزیہ انداز میں لکھا ہے کہ یہ گیارہ ہزار ارب کا اعلان بھی کر سکتے تھے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ اگر گیارہ ہزار ارب کی امداد کا اعلان کرتے تو خود انہیں بھی ہنسی آ جاتی۔ لیکن میرا موضوع یہ نہیں ہے۔ میں تو ایک دلچسپ پہلو کی طرف اپنے قارئین کو متوجہ کرنا چاہتا تھا کہ سوشل میڈیا پر اگرچہ چل چلائو ہوتا ہے کہ جو کسی کے منہ میں آئی کہہ دی یا جو خیال آیا لکھ دیا۔ مگر بعض پوسٹیں بہت لطف دیتی ہیں۔ اعلیٰ درجے کی ظرافت‘ بزلہ سنجی اور اختراع آپ کو سرشار کر جاتی ہے۔ مثلاً کراچی کی ریحانہ کنول نے کرپشن کے وزن پر ہڑپشن کا لفظ استعمال کیاتو مجھے اپنے دوست غلام محمد قاصر کے معروف شعر میں تصرف کرنا پڑا: کروں گا کیا جو کرپشن میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام ہی نہیں آتا اس نے اور بھی کئی لفظ بنائے ہیں جن میں بھنگوتیے بھی ہے یعنی بھنگ ہے۔ آج کل بھنگ کے حوالے ٹرینڈ خوب چل رہا ہے۔ مثلاً یہی ایک پوسٹ بڑی دلچسپ تھی کہ نواز شریف نے کئی کھرب لگا کر صرف چند ایف تھنڈر طیارے بنائے تو غریب کا پیسہ ضائع ہو گیا اور اب اپنے خان صاحب بھنگ کے ذریعہ لاکھوں جہازپیدا کریں گے۔ ظاہر ہے آپ جانتے ہیں کہ نشئی کو عرف عام میں جہاز ہی کہا جاتا ہے۔ اس پر جب میں نے آج کے اخبار میں شاہ محمود قریشی کا بیان پڑھا کہ ہم ٹیک آف کر چکے ہیں تو میری ہنسی نکل گئی۔ ظاہر ہے ایسی باتوں پر حیرت تو ہوتی ہے کہ ادارے بقول آپ کے آپ کے کنٹرول میں نہیں۔ معیشت آپ نے گرائونڈ کر دی ہے۔کہنے سے کوئی ہوا میں تو اڑنے نہیں لگتا۔ چاند چڑھے گا تو سب دیکھیں گے۔ ملک کا دفاع کرنے والوں کو ہم بھی سلام کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے وطن کی بقا ہی اس میں ہے ۔ عوام فوجی جوانوں کی قدر کرتے ہیں اور قربانیوں کو بھی بھیگی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ میں ایک ریٹائرڈ جنرل کا بحیثیت تجزیہ کار تجزیہ سن رہا تھا تو اس نے کسی لگی لپٹی کے بغیر سب کچھ کھول کے رکھ دیا کہ سب کو اسٹیبلشمنٹ ہی لے کر آئی۔ اس نے سب کو سپورٹ کیا اور کوئی اپنی ورتھ ثابت نہیں کر سکا۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت گرفت کرتی ہے جب اسے ٹکر ماری جائے تفصیل میں جائوں گا تو ساری پرانی گھسی پٹی باتیں سامنے آ جائیں گی۔ایک بات سب نے کی کہ اب کے تو عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ سے تال میل بالکل ٹھیک چل رہا ہے پھر کیوں نتیجہ نہیں نکل رہا۔ تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اندازہ لگانے والوں سے غلطی ہو گئی کہ وہ سمجھتے تھے کہ بیس سال جدو جہد کرنے والے کے پاس کوئی منصوبہ ہو گا۔کوئی متعلقہ لوگ ہونگے۔ ویسے وہ کہتے تو درست تھے۔بہت سے دانشوروں کو بھی دھوکہ ہوا: بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا اسد عمر جیسے بھی آغاز میں ہتھیار پھینک گئے۔ مراد سعید اور فیصل واوڈا بالکل ہی غیر سنجیدہ لوگ نکلے۔ ایسے ایسے نابغے پی ٹی آئی نے متعارف کروائے کہ طلال چودھری جیسے لوگ بہتر لگنے لگے۔ یہ بڑی خوفناک بات ہے کہ آخری ادارے کا ڈر بھی ختم ہو جائے اور کوئی سینہ سپر ہو کر سامنے آ جائے۔ تاریخ بڑی ظالم ہے یہ اپنے آپ کو دہرا بھی دیتی ہے فیض صاحب یاد آنے لگے ہیں۔ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔بنیادی بات ہی انصاف کی ہے وہ حکومت کرے یا عدلیہ یا کوئی اور انصاف سب کے لئے جب تک نہیں آپ زبانیں بند نہیں کروا سکتے۔ کتنے ذھنوں کو آپ نے الجھن میں ڈال رکھا ہے کہ آپ پکڑ میں آئے ہیں پکڑنے والے پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ ابھی ایک پوسٹ کسی نے لگائی تو پڑھ کر انصاف کرنے والوں کے ساتھ ہمدردی ہوئی۔ پوسٹ اپنی جگہ کمال ہے جناب!جس کیمرہ کی بنیاد پر عوام کے چالان کئے جاتے ہیں۔ مجید اچکزئی کیس میں وہ ناقابل اعتماد کیوں؟ سب لوگ کیسے آنکھیں بند کر لیں۔ تو جناب اگر کسی کو بھی کرپشن پر کوئی سزا نہیں ملتی تو اس پر احتجاج کیسا۔سب کچھ ڈرانے اور دھمکانے کے لئے ہوتا ہے۔ بس کسی کا ایک الوہے جو تیتربنا رہتا ہے۔ اب تو سوچنے والا سخت اذیت میں مبتلا ہے: ہم بھی سوتے تھے کبھی خواب سرہانے رکھ کر ہاں مگر گردش ایام سے پہلے پہلے