چوبیس دسمبر 2019ء بھارت کے جزیروںنکوبار کی پانڈویچری یونیورسٹی کے لئے بڑا خاص دن تھا،یونیورسٹی کی انتظامیہ بڑی متحرک تھی اوروہاں انتظامات سے لگ رہا تھا کہ آج یہاں کوئی خاص تقریب ہے یونیورسٹی سے عموما پولیس اور سکیورٹی اہلکار دور ہی رہتے ہیں ،آج یونیورسٹی میں کانووکیشن تھا ،امتیازی نمبروں سے پاس ہونے والوں کو بھارت کے صدررام ناتھ کوندو نے اپنے ہاتھوں سے گولڈ میڈل پہناناتھے یہ کسی بھی طالب علم کی زندگی کا بہترین لمحہ ہوتا ہے جسے وہ کیمرے کی مدد سے محفوظ کر کے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے،پانڈویچری یونیورسٹی کے طلباء بھی ان لمحات کو یادگار بنانے کے لئے بے چین تھے دوسری جانب یونیورسٹی کے وائس چانسلر گورمیت سنگھ خاصے فکر مند تھے کہ انتظامات میں کوئی کسر نہ رہ جائے یا کوئی گڑ بڑ نہ ہوجائے جس سے یونیورسٹی کی جگ ہنسائی ہو،پانڈویچری یونیورسٹی بھارت کی بہترین جامعات میں سے ہے،2013ء میں یہ بھارت کی دس بہترین جامعات میں سے تھی اور آج بھی اسکا شمار ملک بھر کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے ،وائس چانسلرگورمیت سنگھ بار بار کانووکیشن ہال کے انتظامات کے بارے میں اپنے ماتحتوں سے پوچھ رہے تھے جو انہیں یقین دلا رہے تھے کہ سب بڑیاہے وہ کسی قسم کی چنتا نہ کریں لیکن جانے کیوں ان کا دل کسی انجانے خدشے سے دھک دھک کر رہا تھا لگ رہا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے اور ایسا ہی ہوا صدر مملکت پوری تمکنت کے ساتھ کانووکیشن ہال میں آئے ہال میں موجود لوگوں نے کھڑے ہو کر استقبال کیا انہیں احترام دیا وہ صدر مجلس کی نمایاں نشست پر بیٹھے کانووکیشن کا روائتی انداز میں بھارتی ترانے سے آغاز ہوا جسکے بعدکچھ تقاریر ہوئیں اور آخر میں ٹاپ کر نے والے طلباء کو گولڈ میڈلز پہنانے کی باری آئی ، اسٹیج سے نام پکارا جاتا اور طالب علم دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ اپنا اعزاز لینے اسٹیج پر پہنچتاسلسلہ جاری تھا کہ ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کی ذہین ترین ربیحہ عبدالرحیم کا نام پکارا گیا ،تالیوں کی گونج میں سر کو اسکارف سے ڈھکے ہوئے ربیحہ پروقار انداز میں چلتے ہوئے اسٹیج پر پہنچی ،صدر مملکت نے مسکراتے ہوئے ربیحہ کا استقبال کیا اور امتیازی سند دے کر اسکی گردن میں چمکتا ہوا میڈل ڈالنے کے لئے ہاتھ بڑھائے تو وہیں گڑ بڑ ہوگئی جو گورمیت سنگھ کو پریشان کئے ہوئے تھی،ربیحہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئی اور اس نے بھارت کے متنازعہ شہرئت بل پر دستخط کرنے والے صدر مملکت سے گولڈ میڈل لینے سے احتجاجاً انکار کر دیابعد میں ربیحہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے بھارتی شہریت کے قانون میں متعصبانہ ترمیم اورطلباء پر پولیس تشدد کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایاہے ،بات صرف ربیحہ تک نہیں رہی اینتھروپولوجی میں گولڈ میڈل کی حقدار ٹھہرائے جانے والی میگالہ نے بھی اس احتجاج میں ربیحہ کا ساتھ دیا اور بھارتی صدر سے میڈل پہننے سے انکار کردیا،میگالہ کا کہنا تھا کہ میں یونیورسٹی ٹاپر ہوںیہ اعزاز کی بات ہے کہ آپکا نام پکارا جائے آپ اسٹیج پر جائیں اور صدر مملکت سے گولڈ میڈل لیں لیکن اس وقت جب ملک کا آئینمتاثر کیا جارہا ہو اور بہت کچھ غلط ہو رہا ہو میرا دل نہیں مانااور میں نے بائیکاٹ کردیا۔ بھارت میں متنازعہ شہریت کے قانون کے خلاف اٹھنے والی تحریک انکار تھمنے کا نام نہیں لے رہی کیا کالج کیا یونیورسٹیاں کیا میدان اور کیا سڑکیں، بھارت کے طول و عرض سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں بھارتی نیوز چینلز کے کاپی رائٹر اور نیوز شو کے اسکرپٹ رائٹرلکھ لکھ کر تھک چکے ہیں ان احتجاجی مظاہروں کی کوریج پر مصروف کیمرا مین Long,Masterاور  مختلف زاویوں سے شوٹ کرکرکے تھک جاتے ہیں لیکن نہیں تھکتے تو بی جے پی حکومت کا متعصبانہ قانون رد کرنے والے،عجیب بات یہ کہ اس تحریک کی کمان طلباء اور خواتین کے ہاتھ میں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ صنف نازک سمجھی جانی والے بھارتی ناریاں اسکا ہراول دستہ ہیں، شہریت ترمیمی بل پر ’’انکار‘‘ کی شدت اتنی زیادہ ہے اور یہ اتنا متعصبانہ ہے کہ وہاں موجود غیر ملکی بھی احتجاج کئے بنا نہیں رہ سکے ،انسانیت کی خاطر آواز بلند کرنے والے جرمن طلباء کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھی جاسکتی ہیں ان مظاہروں میں شرکت کی پاداش میں جرمن طالب علم لینڈنتھال کو فوری طور پر بھارت سے باہر نکال دیا گیا،لینڈنتھال کی تصویر سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی تھی جس میں اس کے ہاتھوں میں پلے کارڈ پر پڑھا جا سکتا ہے 1933-1945 WE HAVE BEEN THERE ( ہم نے 1933سے1945کا نازی دور دیکھ رکھا ہے)اس پلے کارڈ نے گویا’’ نئی دہلی ‘‘کے مسے نوچ لئے تھے،دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ،علیگڑھ یونیورسٹی کے طلباء طالبات اور شاہین باغ کی خواتین مودی کے اس اقدام کے خلاف پوری تحریک کی رہنمائی کرتی دکھائی دے رہی ہیں ان کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہے ،یہ ہم عمر ہیں نہ ہم مزاج ہیں ،کہاں علیگڑھ کی ریشمی آنچلوں والی شوخ و چنچل مزاج لڑکیاں،کہاں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سیکولر کمیونسٹ ماحول کی کامریڈزاور کہاں جمنا کنارے سخت سرد ی میں شاہین باغ میں بیٹھی گھریلو خواتین لیکن ان سب میں ایک قدر مشترک ہے اوروہ ہے ’’انکار‘‘آسام سے لے کر شاہین باغ اور شاہین باغ سے لے کر پانڈویچری یونیورسٹی کا کانووکیشن ہال تک،مودی سرکاری کو ہر جگہ اس ’’انکار‘‘ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ،دہلی کے شاہین باغ میں مسلمان خواتین پندرہ دسمبر سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ مستند میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ’’تحریک انکار‘‘ میں اب تک بائیس افراد جان دے چکے ہیں جن میں سے پندرہ ہلاکتیں اترپردیش میں ہوئی ہیں ،اترپردیش میں دفعہ 144نافذ کر دی گئی ہے لیکن صورتحال قابو میں نہیں آرہی،اترپردیش وہی ریاست ہے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے او راسی حکومت کے ایک وزیر نے سرعام سرکار مخالف نعرے لگانے والوں کو زندہ دفن کرنے کا اعلان کیا تھا ،دلیپ گھوش مغربی بنگال میں بی جے پی کے کرتا دھرتا اور صدر ہیںیہ لوک سبھا کے رکن بھی رہ چکے ہیں لیکن عوامی انکار نے انہیں بھی غضبناک کر رکھا ہے ان کا مشورہ ہے کہ شہریت قانون کے مخالفین کو کتوں کی طرح گولی مار دینی چاہئے ،بھارتی وزیر اعظم نے بھی توپوں کا رخ واضح طور پر مسلمانوں کی طرف کر دیا ہے انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مظاہروں میں تخریب کاری کرنے والے اپنے لباس سے پہچانے جارہے ہیں ،صاف لگ رہا ہے کہ بھارتی سرکار زچ ہوکراب گولی گالی سے اس عوامی انکار کو مٹانا چاہ رہی ہے اوراس کام کے لئے گجرات کے قصاب کے لئے سڑکوں پر نکلے عوام کے لہو سے سستی سیاہی کیا ہو سکتی ہے!!