افغانستان سے امریکی انخلا امن کی جانب پیش رفت ہرگز نہیں۔جس طرح افغانستان میں مختلف گروہ متحرک ہیں اور ان کی صف بندی کی گئی ہیں اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان امریکی فوجی انخلا کے بعد ایک طویل عرصہ تک تنازعات اور جنگ کا شکار رہے گا۔ یہ خلفشار نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی غیر مستحکم کرنے کی وجہ بنے گا۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ہائی برڈ زون میں مصروف رکھنے کے لئے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔امریکہ پاکستان کے خلاف یہ جال سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے بن رہا ہے تاکہ پاکستان کو مضبوط ہونے سے روکا جا سکے اور عالمی تجارت اور معیشت میں جو کردار مصر کی نہر سویز کا ہے وہ سی پیک کے فعال ہونے کے بعد پاکستان نہ حاصل کر پائے۔اگر افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو افغانستان کی بدامنی اور خانہ جنگی بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے امن کو یرغمال بنائے رکھے گی ۔تورا بورا رینج میں القاعدہ آئی ایس آئی ایس اور تحریک طالبان کو منظم کر کے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں۔سعودی عرب کی نئی صف بندیوں سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خطہ میں امریکہ، فرانس ،برطانیہ اور اسرائیل کس قسم کا خوفناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ جس کا مقصد عربوں کو تنہائی کا شکار کرنا ہے۔ دوسرا مقصد عربوں کوباہمی تنازعات میں الجھا کر ان کے تیل کے وسائل کو کنٹرول کرنا ہے تیسرا مقصد خطے کے سیاسی ڈھانچے کو ازسرنو منظم کرنا ہے۔ یہ خلیج میں مغرب کی نئی منصوبہ بندی اور سازشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ سعودی عرب اپنے دشمن ایران سے تنائو کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے خطہ کے ممالک دشمنی ختم کرکے دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہے خطہ میں شام اور عراق چین اور روس میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب طالبان کی موجودگی پاکستان کے لئے مسلسل خطرہ رہے گی جس طرح وزیرستان میں ضرب عضب سے پہلے تھی افغان طالبان نے دانستہ طور پر خطے میں داعش دولت اسلامیہ اور تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں سے آنکھیں بند کئے رکھیں۔ بلوچستان کے شدت اور تشدد پسندوں نے بھی ان تنظیموں سے گٹھ جوڑ کر کے قندھار میں بیٹھ کر بلوچستان اور سندھ میں کارروائیاں کیں اور مستقبل میں بھی طالبان کے دوہرے کردار کی وجہ سے یہ تنظیمیں افغان سرزمین کو پاکستان میں استحکام کے لئے استعمال کرتی رہیں گی۔پاکستان کو افغان سرحد سے پریشان کرنے کا مقصد صرف مشرقی سرحد اور لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی گرفت کمزور کرکے بھارت کو فری ہینڈ دینا ہے۔ یورپی یونین کا فرانس کی حمایت میں کھڑے ہونا تو محض ایک اشارہ ہے پاکستان کو شدید اور سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کے ذریعے پاکستان کی عدم استحکام کی شکار معیشت کو تباہ کر سکتے ہیں۔پاکستان کو اپنی بقا کے لئے آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کو سٹیٹ بنک آف پاکستان، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، فیفٹ اور ڈبلیو ٹی او کے ذریعے براہ راست کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاکہ پاکستان کے پاس عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی خواہشات پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے۔ان مقاصد کے حصول کے لئے سیاسی حلقوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کرپٹ اشرافیہ حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے اور احتساب کے عمل کوسبوتاژ کرنے کے لئے اکھٹی ہو گئی ہے یہاں تک کہ دوست اور دشمن کی پہچان ختم ہو کر رہ گئی ہے۔یہ اسی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے کہ حکومت کے لئے عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کے بارے میں سوچنے کے امکانات محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ نئے وزیر خزانہ کی حکومت گزشتہ پالیسیوں کے باکل متضاد اپروچ دراصل حکومت کی تین سال کی پالیسیوں کے خلاف چارج شیٹ ہے۔پاکستانی میڈیا بھی حکومت کے مثبت اقدام کو نظر انداز کر کے حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہا یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کو اندر اور باہر سے خلفشار کا شکار کرنے کے لئے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ تباہی پاکستان کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر پاکستان کی حکومت سیاستدان عدلیہ میڈیا یہاں تک کہ مذہبی حلقے اس منصوبے سے بے نیاز ہیں۔ پاکستان کے خلاف کھیل کا یہ حصہ ہے کہ یہاں ہر کوئی دوسرے کا گلہ کاٹنے کے درپے ہے۔مندرجہ بالا سطور میں پاکستان کو درپیش جن چیلنجز اور خطرات کا ذکر کیا گیا ان سے بے نیاز پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس وقت اپنی قوت ایسی سٹریٹجی بنانے میں صرف کر رہی ہیں کہ کس طرح پنجاب پر قبضہ کیا جائے، کس طرح وفاق میں عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنایا جائے، کس طرح چالیس ضمیر فروش سیاستدانوں کی وفاداری خریدی جائے اور عمران خان کو کرسی سے اتارا جائے۔ کسی کو ملکی مفاد کی کوئی پروا نہیں ہر کوئی عمران خان سے ہر قیمت پر نجات حاصل کرنے کے درپے ہے۔ پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بُنے جا رہے ہیں مگر کسی کو پروا نہیں۔ کہنے کو عدلیہ آزاد مگر اس کے فیصلے مسلسل ایک سیاسی جماعت کے حق میں آ رہے ہیں۔اس کا سبب بیورو کریسی میں موجود عناصر ہیں یا حکومت میں یا پھر نام نہاد اسٹیبلشمنٹ میں؟گزشتہ تین برس میں پاکستان مسلسل کم یا زیادہ مواقع حاصل کرتا رہا ہے مگر حکومت کی معاشی ٹیم کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ان سے بھر پور استفادہ حاصل نہ کیا جا سکا۔پاکستان کے معاشی انجن جو زراعت ہے کو بہتر بنانے کے لئے کوئی اقدامات نہ ہو سکے۔سی پیک کو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنانے کے لئے کچھ نہ کیا گیا۔ صارف مارکیٹ حکومتی مافیاز کے کنٹرول میں رہی۔سر کلر ڈیتھ توانائی کے شعبے میں ٹائم بم کی صورت میں موجود ہے۔وجوہات جو بھی ہوں موجودہ حکومت مختلف قسم کے حصار میں پھنسی رہی اور خود کو بے بس محسوس کرتی رہی ہے ۔پاور پالیٹکس میں کمزوری کے بطن سے عدم استحکام جنم لیتا ہے۔عدم تفہیم اور غیر دانشمندانہ فیصلے ہوتے ہیں جب سب کچھ ہی جل کر راکھ ہو جائے تو پھر کھونے کے لئے بچتا ہی کیا ہے۔پاکستان کی مغربی سرحد پر دیدہ اور نادیدہ خطرات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی ڈولتی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی جائے بڑھتی سیاسی انارکی کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں تاکہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پاکستان کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے یکسوئی سے حکمت عملی مرتب کر سکے۔اگر بدعنوان عناصر اور کارٹیلز کو یونہی کھلا چھوڑ دیا گیا تو حکومتی اقدامات رائیگاں جائیں گے اور پاکستان کی عدلیہ قومی دولت لوٹنے والوں کو ریلیف دیتی رہے گی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے دشمن پاکستان کو کھلے عام چیلنج کر رہے ہیں مگر پاکستان کی قیادت خطرات کو محسوس کرنے سے قاصر ہے۔اگر پاکستان حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے قابل عمل حکمت عملی مرتب نہیں کرتا تو خدانخواستہ ملک عدم استحام اور انتشار کی طرف بڑھتا رہے گا اور یہ پاکستان کے لئے خطرناک صورتحال ہو گی۔پاکستانی قیادت گزشتہ تین دھائیوں سے خطرات سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔اگر اسی طرح چلتا رہے گا تو پھر پاکستان کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے کون سوچے گا؟یہی وجہ ہے کہ میں آج بھی پاکستان سے مخلص قیادت سے یہی گزارش کروں گا کہ وہ ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں پر رجوع کرے اور پاکستان کے مفادمیں فیصلہ سازی کی جائے یہی ایک راستہ ہے جو پاکستان کو تباہی سے بچا سکتا ہے ورنہ پاکستان اسی طرح ختم نہ ہونے والے عدم استحکام اور خلفشار کا شکار رہے گا۔