پھر اس ادارے میں تمھارے وہ ناز پرور، ناز بردار حبیبِ لبیب شعیبِ شاہد بھی تو ہیں، جو لفظوں اور استعاروں کے مزاج کو میاں ذوق کی طرح خوب سمجھتے ہیں، شنید ہے، اُنھوں نے بھی یہاں کیمتعدد شوخ چشموں، جاہ حشموں کی مانند اپنے لیے جورو کا انتخاب اسی کلیۂ عروسی سے کیا تھا۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ محترمہ ’’اگر کوئی شعیب آئے میسر‘‘ کی خواہش کے ساتھ کس عزم کا عَلم لے کر ان کے کھونٹے سے بندھی ہوں گی۔ ہمیں تمھیں تو اس گناہِ بالذت کی توفیق نہیں ہوئی، ہم بھلا اس میوۂ بہشتی کی بابت کیا اُکسیں؟ (تمھارے استفادے کی تو قدرت اور قدرتی طور پر ہم بھی اب تک منتظر ہیں) سنا ہے کہ وہ عزیز اپنی اس حرکتِ قلب مند پر آج بھی نادم کی بجائے شادم ہے۔ برقی تصویروں میں تو وہ حضرت خواجہ سگ پرست کی قبیل کے دکھائی دیتے ہیں، جیسے ان کو بھی انسانوں سے زیادہ کتوں کی وفاداری پہ بھروسا ہو۔ میاں تمھیں یاد تو ہوگا کہ ایک یہاں پر میرے اور آپ کے پیارے نوری میاں ہوا کرتے تھے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ صرف نام کے نوری نہیں تھے بلکہ ان کی بعض ناقابلِ یقین کرامات کی بنا پر ایک زمانہ اُن کے کمالات کا چشم دید شاہد ہے۔ اسے ان کی مہربانی کے علاوہ بھلا کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ وہ نوری ہونے کی دعوے داری کے باوجود ہم جیسی خاکی مخلوق کے درمیان زندگی کے قیمتی چونتیس سال بسر کر گئے۔ اب سنا ہے وہ کسی سچ مچ کی نوری مخلوق کی جامعہ سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ میر خفقانی خبر لایا ہے کہ وہ وہاں ڈین کے عہدے پر متمکن ہیں، وگرنہ کیسے کیسے لوگ علمی دنیا سے بے ڈین ہی سدھارے۔ سنو میاں نظامی! میرے علم میں آیا ہے کہ تمھارے اس قریۂ دل پذیر کی ایک استانی بلا کی مغنیہ بھی ہے۔ مرزا مُفتہ نے بتایا ہے کہ وہ خوش ادا محترمہ نہ صرف شعر و ادب کی دنیا میں بے دھڑک ہے بلکہ تمھارے اس زمانے کی برقی چہروں کی کتاب کے اوراق پہ بھی میرزا داغ کی مانند اِترائے ہوئے قلم رکھتی ہے۔ اصل شہرت اس نے سنا ہے نسوانی بیداری (تمھارے زمانے کے لوگ جسے نسائیت یا فیمینزم کا نام دیتے ہیں) کے حامل ایک ناول سے پائی ہے۔ میر اِملائی جس کے مطالعے کے بعد نہ صرف ورطۂ حیرت میں ہے بلکہ کسی قسم کے تبصرے سے بھی گریزاں ہے۔ میرا دھیان رہ رہ کے تمھاری طرف جاتا ہے کہ قدرت نے تمھیں بھی تو بے پناہ تحقیقی صلابت اور تخلیقی سلاجت عطا کر رکھی ہے۔ کتب و رسائل تو رہے ایک طرف، تتلیوں، بھنڈیوں اور کووں تک کی نسلیں، فصلیں اور اصلیں روزانہ کی بنیاد پر کھنگالتے پھرتے ہو۔ ذرا میرے بھی علم میں لاؤ کہ یہ ناول کس بلا کا نام ہے؟ یہ کوئی دنیا اور اہلِ دنیاکے ستائے، رُلائے، کھپائے میر امّن کی طرز کے درویشوں کی ہڈ بیتی ہوتی ہے یا میرزا شوق کی مثنویوں کے محبت کے مارے، عاشقی میں ہارے نوجوانوں کی نیندیں حرام کر دینے والی جگ بیتی۔ اس کی بابت شتاب لکھو تاکہ تجسس رفع ہو، تمھارے یہاں ہونے کا کچھ تو نفع ہو۔ ایک وہ ہمارا حبیبِ لبیب ناصر عباس نیر ہے، تنقید کے میدان میں جس کا طوطی سرحد کے دونوں جانب اونچے سُروں میں بولتا ہے۔ اورینٹل کے لیے خواجہ میاں کے بعد یہ ہیر کی دھرتی کا دوسرا تحفہ ہے۔ یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ ایسے فطین لوگوں کا عام قسم کی گھریلو زندگی میں گزارا کیسے ہوتا ہوگا؟ جو بیگم کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی کی ساختیات جانچنے کے لیے بھی ایڈورڈ سعید کی کسی تھیوری کا سہارا لیتے ہوں گے اور سالن کا اچھا برا ذائقہ بیان کرنے کی خاطر پوسٹ کولونیل دور کے باورچیوں کا سراغ لگانے کے جتن کرتے پھرتے ہوں گے۔ میاں ان حضرت کا حال تو ہو بہو ہمارے یارِ غور جمیل احمد عدیل جیسا ہے، جو کبھی اہلِ خانہ کے سامنے آسان اسلوب میں بات کر رہا ہو تو گھر والے دواخانہ حکیم اجمل کی طرف ہرکارہ دوڑا دیتے ہیں، جہاں سے منگوائے گئے اطریفل اُسطوخُدّوس اور جوارش جالینوس جیسے مشکل ناموں والے نسخے استعمال کرائے بغیر اس برخوردار کی نارمل زندگی میں واپسی دشوار ہو جاتی ہے۔ پھر وہ ہمار ا پیارا، سرائیکی ستارہ میاں کامران ان دنوں سنا ہے غزالوں کا طریق سیکھ کے دُور ہی دُور بھاگا پھرتا ہے۔ کسی پرائی مجلس ہی میں ان سے علیک سلیک کی نوبت آ پاتی ہے۔ میری خواہش پر مرزا مُفتہ ان کی تلاش میں دریائے راوی والی بارہ دری تک گیا۔ وہاں سے خبر لایا کہ وہ حضرت آج کل کسی بارہ دری میں قیام کے بجائے در بدری پہ یقین رکھتے ہیں اور کبکِ دری کی رفتار سے سوشل میڈیائی حسینہ کے تعاقب میں ہیں۔ مرزا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ زمانہ ٔ حال میں وہ حضرت صیغۂ اُردو کی بجائے ترجمے اور تالیف کی راجدھانی سنبھالے بیٹھے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہوا کہ موصوف وہاں تالیفِ کتب پہ زیادہ توجہ کرتے ہیں یا تالیفِ قلب پر۔ مجھے تو یہ بھی خدشہ ہے کہ اُس ادارے سے اس قدر لگن کے بعد کل کلاں کو وہ اگر دوبارہ اس نگری میں آن مقیم ہوئے تو پیچھے سے انھیںکہیں یہ آواز نہ سنائی دیتی رہے: تم آ گئے تو قلب کی تالیف ہو گئی تم چلے گئے تو پھر وہی تکلیف ہو گئی میاں ایک شکوہ تو مجھے تمھاری انتظامیہ سے تا دیر اور شام سویر رہے گا کہ چند ایک جاٹ اگر اپنے پُرکھوں کی راہ سے بھٹک کر، میری طرح محض اپنے ضمیر کے بہکاوے یا قسمت کے مُک مکاوے پر، اس ادارے میں آن بسے تھے تو انھیں کس ظالم نے، اور کس جرم کی پاداش میں کالج کے روایتی چائے خانے کی پُشت پر پھینکوا دیا ہے۔ شاید کسی حاسد نے مخبری کر دی ہو کہ ان جاٹ زمینداروں کے نہاں خانۂ قلب میں زمین کا ایسا ہُڑک ہوتا ہے کہ زمین کے اوپر قدم رکھتے ہی ان کے اندر قبضے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ اربابِ اختیار سوچتے ہوں گے کہ شاعرِ نامعلوم نے یہ ناملائم شعر ہمارے ذات قبیلے کی بابت ہی کہا ہوگا: مرنے کے بعد بھی نہ ریاست کی خُو گئی دو گز زمین پا کے زمیندار ہو گئے یقین کرو عمارت کے اس حصے سے تو آنکھ آج تک مانوس ہی نہیں ہو پائی، اسے دیکھ کے یوں لگتا ہے کہ چاچا نجم بہشتی کے وارثان نے گھر کا چولھا چونکا چلانے کے لیے اَکل و شرب کے لوازمات میں اضافہ نہیں کیا، بس کچھ کمرے جاٹ برادری کو کرائے پر اٹھا دیے ہیں۔ کنٹین کی تنگ دامانی ہی کی وجہ سے یہاں کے احباب کی ہمیشہ ٹوٹی پیالیوں والی چائے پہ ہی ترکی تمام ہو جاتی ہے۔ بعض متمول اساتذہ اپنے کمرے میں رکھے رکھے ذائقے اور تاثیر سے ریٹائر ہو جانے والی کافی ہی کو ہر طرح کے مہمانوں کی تواضع کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ میاں سچ کہتا ہوں کہ مجھے تو تمھارے اس ادارے کی توسیع و تعمیر کے ضمن میں صرف میاں شیرانی والے حصے کے حصے بخرے کرنے والا منصوبہ اچھا لگا۔ علم و ادب کے ایسے پارکھ کا اقبال اور ’ہال‘ بلند کرنے کے لیے کسی قطب یا کتب خانے ہی کا سہارا لیا جا سکتا تھا۔ (جاری)