بالآخر سابق اور نا اہل وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی پٹاری سے وہ سانپ نکال کر دکھا ہی دیا جس کا وہ اپنی نا اہلی کے بعد سے اکثر ڈراوا دیا کرتے تھے کہ میں بتائوں گا کہ میرے خلاف کیا سازش ہوئی ہے ۔بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ میری نااہلی کی وجہ بنا۔ میں نے بات نہ سنی تو میری حکومت کے خلاف دھرنے کرائے گئے مقصد مجھے پی ایم ہائوس سے نکالنا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے جو الزامات پاک فوج کیخلاف لگائے ہیں وہ وہی ہیں جن کا وہ اشارۃً ذکر اپنی ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والی تقریروں میں کیا کرتے تھے۔ انہوں نے فوج کے خلاف جو گل افشانی کی ہے انہیں اس پر سوبار سوچ لینا چاہیے تھا، ان کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ طاقت گفتار دکھانے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنی پاک دامنی کا ثبوت فراہم کریں۔ میاں نواز شریف جس راولپنڈی سازش کیس کا بار بار ذکر کرتے ہیں اسے فیض جیسے ترقی پسند لیاقت علی خان، سکندر مرزا اور ایوب خان کی ذہنی اختراع قرار دیتے تھے لیکن سابق وزیر اعظم اب اسے فوج اور لیاقت علی خان کے درمیان سول بالادستی جنگ کے طور پر پیش کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے وہ سول بالادستی کی جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔ لیکن میاں صاحب کو شاید یہ علم نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس راولپنڈی سازش کیس کے دو اہم کرداروں میجر جنرل اکبر خان اور فیض احمد فیض کو مشیر بنا لیا تھا اور اب میاں صاحب لیاقت علی خان کی شہادت کو فوج کی سازش قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج نے جمہوریت کے خلاف سازش کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا، میاں صاحب کو عقل و خرد سے کام لینا چاہیے اور ایسی ذہنی رخنہ اندازی اور سیاسی طفل تسلیوں سے بچنا چاہیے جس سے ملک کے معتبر اداروں کی کارکردگی پر حرف آئے۔