جناب مشتاق احمد یوسفی کا زبان زدِ عام قول ہے کہ: ’’ ساس، سُسر، موسم اور حکومت کے خلاف لکھنے اور بولنے کے لیے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا پڑتا۔‘‘ پہلے تین عناصر پہ مارا ماری تو سارا سال چلتی رہتی ہے بلکہ نہ جانے کب سے چلی آ رہی ہے۔ بقول ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر: رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے؟ یوں لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی بہو اپنی ساس سے اور کوئی بندہ موجود موسم سے خوش نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حکومت کے خلاف بولنے اور لکھنے کا مظاہرہ بھی کچھ نیا نہیں ہے۔ آج کل بھی یہ ادا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ پورے شدّو مد سے جاری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کی غلط پالیسیوں پہ عوام، عوامی نمایندوں یامیڈیاکو لکھنے بولنے کا پورا پورا حق ہونا چاہیے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے، لیکن اگر کسی حکومت یا حکمران سے پوچھ گچھ بلکہ منفی تنقید و تنقیص کا سلسلہ اس کے زمامِ کار سنبھالنے کے اگلے دن ہی سے شروع ہو جائے اور بڑھ چڑھ کے بولنے والے گزشتہ ناکامیوں کے ذمہ دار یا کم از کم عینی شاہد ہوں اور جس میڈیا یا میڈیا پرسن کی اچھائی دیکھنے والی آنکھ ہی اندھی ہو جائے تو بات مختلف ہو جاتی ہے۔ معقول انداز سے اعتراض کرنا اور بات ہے، جب کہ ہر بات دوسرے کے منہ پہ مارتے چلے جانا دوسری بات…یہ جان لیں کہ ہر بات کا اُلٹا اور غلط مطلب نکالنا زرد صحافت اور سرد سیاست کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی ہے۔ رہی سیاسی دھرنوں، جلسوں، جلوسوں، لانگ، شارٹ مارچ اور زبانی آتش فشانیوں کی بات ، اس کو دیکھتے دیکھتے تو نہ جانے کتنوں کے بال اور کتنوں کے خون سفید ہو گئے ہیں۔ اس صورتِ حال پر ہمارے دوست شناور اسحاق کا کیا خوب شعر ہے کہ: اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا؟ ان کی حکومتوں کی کتاب کا ایک ایک ورق اٹھا کے دیکھ لیجیے، ایک ایک سطر پر قومی زوال کی داستانیں لکھی ہوئی ملیں گی۔ ان کے ادوار میں شروع ہونے والے ہر منصوبے کی ایک ایک اینٹ کرپشن کی دیمک کا شکار دکھائی دے گی۔ کہیں بتیس جہازوں کے لیے آٹھ سو پائلٹ بھرتی کیے ہوئے ہیں، کہیں سٹیل مل میں جہاں ایک ہزار ماہر ملازمین کی ضرورت تھی، وہاں گیارہ گیارہ ہزار نکمے ورکروں کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ستم یہ کہ جو اس بلا وجہ بوجھ کوکم کر کے ملکی معیشت کی جھکی کمر سیدھی کرنے کی کوشش کرے گا یا اس قومی مرض کی نشان دہی کرے گا، اس کے خلاف ان کے من۔ آگ برسانے لگیں گے۔ گزشتہ حکومتوں کا ریکارڈ اٹھا کے دیکھ لیں، صرف ایک ہی دوڑ پوری ایمان داری سے لگی ہوتی تھی کہ کہیں لوٹ مار میں پیچھے نہ رہ جائیں، بقول شاعر: (غلام محمد قاصر کی روح سے معذرت کے ساتھ): کروں گا کیا جو ’کرپشن‘ میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا یہ کون نہیں جانتا کہ سابقہ حکومتوں اور موجودہ متحدہ اپوزیشن جن کا ازل سے آپس میں اِٹ کتے کا بَیر رہا ہے، پتہ نہیں ہماری قوم کا حافظہ اس قدر کمزور کیوں ہے؟ یا اسے ہر دو تین سال بعد انھی لٹیروں کے ہاتھوں بے وقوف بننے کا شوق کیوں ہے؟ ہر معقول آدمی کو خبر ہے کہ ماضی قریب میں ان میں سے کون کس کو سڑکوں پہ گھسیٹنا چاہتا تھا۔ ان ہی کے بقول، ان سب کے پاس ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے ٹھوس اور واضح ثبوت بھی موجود تھے بلکہ مزے کی بات یہ کہ ان کے اس وقت عدالتوں میں چلنے والے مقدمات بھی ایک دوسرے کے خلاف انھی کے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ اگر حکومتِ وقت کے خلاف مل کے زور لگا رہے ہیں تو کیا قومی خدمت کا جذبہ انھیں چَین نہیں لینے دے رہا؟ بلکہ اب کی بار بھی ایجنڈا یہی ہے کہ: قوم کی لُٹیا چلو مل کے ڈبوتے ہیں میاں تو بھی سیاست دان ہے ، مَیں بھی سیاست دان ہوں مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی جلاوطنی کے ایران میں گزرنے والے دنوں کے سفر کا احوال ’’ایران کے چار موسم‘‘ کے نام سے لکھا، جس میں انھوں نے بتایا کہ سخت سردی کے موسم میں بھوکوں مرتے وہ بھیڑیے جن کے منہ کو خون لگا ہوتا ہے، شاید کسی نئے شکار کی پلاننگ کے لیے ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں، لیکن اس دوران ایک دوسرے کے اوپر بھی گہری نظر رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس نے بھی ذرا پلک جھپکی دوسرے مل کے اس کی تِکا بوٹی کر کے رکھ دیں گے۔ آپ پوری ایمان داری سے موجودہ اپوزیشن اتحاد کے ایک ایک فریق کو اس کے اقتدار زدہ ماضی اور اختیار سے آلود کرتوتوں سمیت غور سے دیکھ کر اور خدا کو حاضر ناظر جان کر بتائیے کہ ان لوگوں نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں ملک کا کیا حشر کیا؟ کتنی بار کرپشن کے الزام میں نکالے گئے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں ہیں کہ یہ لوگ قوم کے درد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں؟ قومی خزانے کو سیندھ لگا کے بننے والے ان ارب پتیوں کو کسی طرح کی مہنگائی کی فکر ہے؟ ملک کے دیوالیہ یا خدا نخواستہ ناکام ریاست قرار دیے جانے کی امید اور کوشش میں باہر جائیدادیں بنائے اور کاروبار چلائے چلے جانے والے کیا ملک کی ترقی کے غم میں گھلے چلے جا رہے ہیں؟ کیا یہ ملکی ترقی کے لیے کوئی نئی منصوبہ بندی جیب میں ڈالے پھرتے ہیں؟ ان پہ تو ایک سرسری سی نظر بھی ڈال لیں تو ڈاکٹر ظفر کمال کا یہ شعر رہ رہ کے یاد آنے لگتا ہے: نظر جس سمت بھی اُٹھے نظارے ایک جیسے ہیں کرپشن کی ندی کے تیز دھارے ایک جیسے ہیں ہمیں تو آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جو لوگ ہر معاملے میں اسی بات کی رَٹ لگائے چلے جا رہے ہیں کہ ماضی کو چھوڑو … آگے کی بات کرو … جو ہو گیا، سو ہو گیا… اب کب تک لکیر کو پیٹتے چلے جائیں؟… جانے بھی دیں بہت ہو گیا احتساب …وہ یا تو پرلے درجے کے مُورکھ ہیں، یا کرپشن میں برابر کے شریک اور یا اس ملک کے سب سے بڑے دشمن!!! اور جو لوگ یہ شور مچاتے ہیں کہ عمران خان نے قوم سے احتساب کا وعدہ کیا تھا، مجرموں کو سزائیں کیوں نہیں مل رہیں ؟ پانامہ، رینٹل پاور، ماڈل ٹاؤن کیس، لندن فلیٹس، آگ لگاؤ، مٹی پاؤ، منشیات کیس، زینب کیس، ایفی ڈرین اور کک بیک، نندی پور، پاور کمپنیاںمعاہدوں کے مجرمان مرحلہ وار رہا کیوں ہوتے جا رہے ہیں ؟ ضمانتی اور اشتہاری مزے میں کیوں ہیں؟ تو اس کی وجہ مَیں، آپ اور رہا کرنے والے بہ خوبی جانتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمیں عمران خان سے صرف ایک ہی ہمدردی ہے کہ اس کے دل میں قوم کا درد دکھائی دیتا ہے۔ وہ اس ملک کے لیے کچھ کرنے کی تمنا رکھتا ہے۔