یہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کے عروج کا زمانہ تھا جب میرا ملنا جلناادریس بختیار سے ہوا۔ وہ تھے تو دائیں بازوو الوں کے ساتھ لیکن اپنے چہرے مہرے اور انداز زندگی کے اعتبار سے بائیں بازو کے لگتے تھے۔اسٹائل لاپرواہی اور بے نیازی کا‘ انگلیوں کے بیچ دہکتا ہوا سگریٹ‘ فقرے بازی کے شوقین‘ اپنے لباس کی طرف سے بے پروا اور مزے مزے میں باتیں کرنے کے عادی۔ جب تک ان سے باقاعدہ ملاقاتیں شروع نہ ہوئیں یہی سمجھتا رہا کہ بائیں بازو کے کوئی جغادری سے دانشور ہوں گے لیکن جب قربت ہوئی تو کھلا کہ یہ ماسکو اور پیکنگ کے نہیں‘ مکہ و مدینہ کے انقلاب کے خواہاں ہیں۔ مگر انتہائی معتدل و متوازن۔ جذباتیت اور انتہا پسندی سے دور‘ غالباً وجہ یہ تھی کہ علم کے جویا تھے۔ ہاتھ میں اکثر کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی تھی۔ واقعی علم آدمی کے خیالات کو متوازن اور جذبات کی تہذیب کر دیتا ہے۔ بجتے خالی برتن ہیں جو برتن بھرا ہو وہ شور نہیں کرتا۔ تو ادریس بختیار بھی ایسے ہی تھے۔ مزاج میں دھیما پن اور اسلوب زیست میں بھی ٹھہرائو۔اردو اور انگریزی صحافت کا دیرینہ تجربہ۔ اخبار اور رسالے دونوں میں کام کیا۔ بی بی سی سے عرصہ دراز تک وابستہ رہے۔ پھر جیو کے ادارتی مواد کی نگرانی بھی کی اور وہیں سے ابلاغ عامہ سے رشتہ منقطع ہوا۔ اچھی بھلی ملازمت ہاتھ سے گئی اور بہت دل برداشتہ سے تھے۔ کالم نگاری سے بھی عرصہ پہلے سمبندھ تمام ہو چکا تھا۔ آخری ملاقات ان سے رفیق بزرگ نصیر احمد سلیمی کی دعوت پر ہوئی کچھ بجھے بجھے سے تھے۔ کہنے لگے: اور تو کوئی افسوس نہیں بس یہ ہے کہ میری اور اہلیہ کی دوائوں کا بل ماہانہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے کا ہوتا ہے وہ کہاں سے اور کیسے ادا کروں گا۔ یہ سن کے بہت قلق ہوا کہ ایک صحافی کالم نگار براڈ کاسٹر‘ اینکر جس نے ذرائع ابلاغ کے جملہ شعبوں میں نہایت دیانت داری اور سلامتی کردار کے ساتھ اپنے فرائض ادا کئے ہوں کیا اس کا اختتام یا انجام یہی ہونا چاہیے۔ سوچا تسلی کے دو بول سے انہیں سہارا دوں لیکن ہمت نہ پڑی۔ پھر ان سے ملنا نہ ہوا۔ آخری رسومات میں بھی اپنی ناسازی طبیعت کی بنا پر شریک نہ ہو سکا۔ جس کا ملال ہمیشہ رہے گا۔ ادریس بختیار کا گھرانہ قیام پاکستان کے بعد راجستھان سے ہجرت کر کے حیدر آباد پناہ گزین ہوا۔ آزادی سے ایک سال پہلے انہوں نے آنکھ کھولی تعلیم حیدر آباد ہی میں ہوئی سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ صحافت کی دنیا میں ایک پروف ریڈر کے طور پر داخل ہوئے لیکن جلد ہی اپنی محنت صلاحیت اور ذوق مطالعہ کی بدولت ترقی کی اور رپورٹر بن گئے۔ حیدر آبادمیں ترقی کے امکانات کو محدود پا کر کراچی منتقل ہو گئے اور یہیں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہاں رہتے ہوئے انہیں عرب نیوز میں ملازمت کی آفر ہوئی تو کئی برس مشرق وسطیٰ میں گزار کر 70کی دہائی میں واپس کراچی لوٹ آئے۔ یہاں ایک عرصہ تک روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں کام کیا۔پھر ڈان کے شام کے اخبار’’ایوننگ اسٹار‘‘ میں چیف رپورٹر ہو گئے۔ ان سے میری ملاقاتیں اسی زمانے کی ہیں۔ یاد پڑتاہے انہوں نے اپنے علم میں اضافے کے لئے کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ میں داخلہ لیا۔ تب یونیورسٹی کے کوریڈور میں انہیں وجودی فلسفیوں کرکے گار‘ سارتر وغیرہ کی کتابیں ہاتھ میں لیے آتے جاتے دیکھتا تھا۔ ان سے ایسا تعارف نہ تھا کہ بے تکلفانہ ملاقاتیں ہوتیں۔ حالانکہ اس زمانے میں بھی کسی طالب علم کے پاس ادب نفسیات اور فلسفے کی کتاب دیکھتا تھا تو بے اختیار دل مراسم استوار کرنے کا خواہاں ہو جاتا تھا۔ تو میں ان دنوں ادریس بختیار کو بائیں بازو کا ہی کوئی انٹیلکچوئل سمجھتا تھا۔پھر انہوں نے پی ایف یو جے اور کے یو جے دستوری گروپ کے پلیٹ فارم سے جتنی بھی نظریاتی سیاست کی ہو لیکن ملازمت انہوں نے غیر نظریاتی اداروں ہی میں کی اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض میں اپنے نظریے کو کبھی دخیل نہ کیا اسی وجہ سے انہیں ہر بڑے میڈیا گروپ میں بلا حیل و حجت کام کرنے کا موقع ملتا رہا۔ یہاں تک کہ بی بی سی میں جہاں دائیں بازو والوں کا داخلہ عملاً ممکن ہی نہیں ہوتا انہیں رپورٹنگ پر مامور کیا گیا۔ جن دنوں وہ ’’ہیرلڈ‘‘ میں تھے ان کی کئی تفتیشی رپورٹوں نے تہلکہ مچایا۔ انہیں نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں بھی ملیں لیکن ان کے پائے ثبات میں جنبش نہ آئی اور وہ اسی بے باکی سے اپنا پیشہ ورانہ فرض ادا کرتے رہے۔میں نے ایک سے زائد بار انہیں اپنے شعبے (شعبہ ابلاغ عامہ) میں لیکچر کے لئے مدعو کیا جہاں انہوں نے طلبا و طالبات کو میڈیا کو درپیش مسائل اور بحرانوں خصوصاً آزادی صحافت کے حوالے سے اپنے خیالات میں شریک کیا۔ ان کے سوالوں کے جواب دیے۔ طالب علم خوش اور مطمئن ہوئے اور خود ادریس صاحب کو بھی اطمینان ہوا کہ ملک کا صحافتی مستقبل اگر یہی طلبہ ہیں تو مایوسی کا کوئی پہلو نہیں۔ ادریس بختیار کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، مدتوں انہوں نے گھرانے کے ساتھ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں گزارہ کیا۔ پھر خدا نے ان کا رزق کشادہ کیا تو گلشن اقبال میں وسیم باغ کے پاس ایک ڈھنگ کا بنگلہ خرید لیا۔ ان کا ایک فرزند بھی والدین کے پیشے سے وابستہ ہو گیا، پیشے سے منسلک ہو کر جو بے اعتدالیاں کھانے پینے اور سونے جاگنے میں ہوئیں اوپر سے کثرت سے سگریٹ نوشی کی عادت نے ان کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔ بائی پاس آپریشن کے بعد وہ بہت کمزور ہو گئے تھے لیکن شگفتہ مزاجی پھر بھی برقرار رہی۔ البتہ آخری ملازمت سے جس طرح انہیں جواب دیا گیا اس کا انہوں نے بہت اثر قبول کیا۔ ذہنی تنائو اور قلبی دبائو ہی کے سبب ہسپتال داخل کئے گئے لیکن سنائونی آ چکی تھی بھلا کیسے جیتے۔ زندگی کی آخری رات انہوں نے کے یو جے کے دعوت افطار اور عشائیے میں گزاری اور پھر اسی شب اپنے رب سے جا ملے۔ ادریس بختیار کی زندگی کے صحافتی نشیب و فراز پر غور کیا جائے تو یہ سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ اس مملکت عزیز میں ایک ایماندار اور اصول پسند صحافی اور اس کے اہل خانہ کا کیا مستقبل ہے؟ خصوصاً ایسے صحافی جو پس پردہ رہ کر کام کرتے ہیں۔ جو اپنے اخبار اور اپنے چینل کا سارا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھاتے ہیں جن کی محنت و مشقت اور خون پسینے سے جن کی جرات و بے باکی اور سلامتی کردار سے ان کے ادارے کی ساکھ قائم ہوتی اور ہر دلعزیزی میں اضافہ ہوتا ہے لیکن جن کارکن صحافیوں سے ایک ادارہ بنتا ہے یہاں تک کہ ایک میڈیا ایمپائر میں تبدیل ہو جاتا ہے لیکن آخر کو ان صحافیوں کو کیا ملتا ہے جو اپنے شب و روز اپنے ادارے پہ نچھاور کر دیتے ہیں‘ اپنی محنت و ریاضت اور خون پسینے سے وہ ایک ادارے کو بناتے ہیں لیکن وہ ادارہ انہیں کیا دیتا ہے۔ بے روزگاری کے سوا ۔کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ملک میں میڈیا کے حالات کو سنوارنے اور ان سے وابستہ صحافیوں کے معاملات کو سدھارنے کے لئے غورو خوض کیا جائے۔ کوئی نیا لائحہ عمل بنایا جائے۔ میڈیا کے اندر جو بے اعتدالیاں اور ناانصافیاں ہیں کہ ایک اینکر کو ادائیگی لاکھوں رو پے میں اور ایک ایماندار رپورٹر یا سب ایڈیٹر کو ہزار ہا میں کی جائے یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے؟ اور پھر ان کی ملازمتوں کو بھی تحفظ حاصل نہ ہو، انہیں طبی سہولتیں اور پنشن کی آسانی بھی میسر نہ ہو۔ کیا عدم تحفظ کے ان احساسات کے ساتھ میڈیا کا معیار بلند کیا جا سکتا ہے؟ ادریس بختیار کی وفات اس پہلو پر ذمہ داروں کو سوچنے کی دعوت دیتی ہے بشرطیکہ سوچنے کی توفیق ملے اور میڈیا کے مسائل کو فی الواقع مسائل تسلیم کیا جا سکے۔