ہمارے ہینڈسم سیلبرٹی وزیر اعظم انکل سام کے دیس میں اپنی کرز میٹک شخصیت کا جھنڈا گاڑ کر واپس وطن عزیز آ چکے ہیں۔ وطن عزیز وہی سدا کا مسائلستان ہے۔ مہنگائی‘ غربت‘ اور شدید قسم کی غربت۔بے روزگاری کے مسائل جوں کے توں ہیں لیکن چھوڑیے ان مسائل کو۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم نے سپر پاور کے دیس میں جا کر بھی ہزاروں افراد سے کھچا کھچ بھرے ہال میں ایک کامیاب جلسہ کر لیا۔ یہ کارنامہ یقینا ہمارے کپتان ہی کا ہے کہ ایسا عوامی جلسہ واشنگٹن ڈی سی کے ایرینا ون ہال میں کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ اس جلسے سے ہمیں کیا حاصل ہوا۔؟پاکستان کو کیا ملا یہ جلسہ صرف ایک مقبولیت کے مظاہرے سے زیادہ اور کچھ بھی نہ تھا۔ ہمارے محترم کالم نگار جناب حسین پراچہ نے تجزیہ کرتے ہوئے بہت خوب لکھا کہ وزیر اعظم اگر وہی کنٹینر والی تقریر دھرانے سے پرہیز کرتے اور خوشحال تارکین وطن کو تحریک دیتے کہ وہ پاکستان کے کروڑوں غریب ترین پاکستانیوں کی مدد کے لئے موأخات کے جذبے کے تحت آگے بڑھیں۔ اس وقت جس طرح سے پاکستانیوں کے دل پاکستان کے لئے دھڑک رہے تھے کوئی بعید نہیں تھا کہ وہاں انسانی ہمدردی کے اس عظیم مقصد کو پذیرائی ملتی اور تارکین وطن کی تائید اور پذیرائی کو کسی عملی شکل میں ڈھال کر ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا جا سکتا تھا جو غربت میں پسے ہوئے پاکستانیوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے میں کام آتا۔ لیکن ایسے بڑے اور عظیم کام وہاں ہوتے ہیں جہاں کوئی وژن موجود ہو۔ ایجنڈا صرف سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کا نہ ہو بلکہ صحیح معنوں میں پاکستان کے عوام کو ایک آسودہ حال زندگی دینے کا ہو۔ ہمارے وزیر اعظم کی شخصیت کی شاید کوئی نفسیاتی گرہ ہے کہ وہ ہمہ وقت سیاسی مخالفین کے خلاف نفرت سے بھرے رہتے ہیں اور نفرت ایک ایسا منفی جذبہ ہے جس کی موجودگی میں مثبت خیالات ‘ مثبت جذبات پنپ ہی نہیں سکتے۔ اگر ملک میں ادارے کام کر رہے ہیں نیب آزاد ہے۔ احتساب کا عمل جاری ہے تو وزیر اعظم اپنے سٹیٹس سے نیچے اتر کر ایک جیل سپرنٹنڈنٹ بن کر کیوں فرماتے ہیں کہ وہ نواز شریف سے اے سی اور ٹی وی کی سہولت واپس لے لیں گے۔ کیا اس سے ذاتی بغض اور انتقام کا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ اگر آپ آزاد عدلیہ قانون اور انصاف کے مضبوط ادارں پر یقین رکھتے ہیں تو آپ انہیں ان کا کام کرنے دیں۔ آپ وہ کریں جو اس ملک کے وزیر اعظم کو 22کروڑ پاکستانیوں کے لئے کرنا چاہیے۔ براہ کرم آپ چیئرمین پی ٹی آئی کے خول سے باہر نکل کر 22کروڑ پاکستانیوں کے وزیر اعظم کی حیثیت سے سوچنا شروع کریں۔ آپ کی حکومت کا ایک برس مکمل ہو چکا ہے یہ اور بات کہ آپ سے امیدیںاور توقعات وابستہ کرنے والوں نے ہر روز آپ کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ آپ کو وہ خواب یاد دلائے جو آپ نے بنجر و ویران آنکھوں کو دیئے تھے۔ تبدیلی کا خواب، نئے پاکستان کا خواب، پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام کا خواب، تھانہ کلچر کو یکسر بدلنے کا خواب، غریب پاکستانی کی عزت کا خواب، بے روزگاروں کے لئے نوکری کا خواب۔ سوال کرنے اور احتساب کرنے کا خواب، قومی لٹیروں سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا خواب! آپ نے دھرنے دیئے، کنٹینر پر کھڑے ہو کر شعلہ بیانی کے جوہر دکھائے اور اپنے چاہنے والوں کو ایک نئے اور بہتر نظام اور پاکستان کا یقین دلا دیا۔ اب ایک برس مکمل ہو چکا ہے۔ تو لوگ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کروڑوں نوکریوں کا خواب دکھانے والوں کے دور میں پراسرار طور پر لوگ اپنی نوکریوں سے ہی کیوں ہاتھ دھونے لگے۔ ایک مثال فیصل آباد کی لے لیں جہاں ہزاروں مزدور بے روز گار ہو چکے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری پر بھی بے روزگاری کے آسیب کا سایہ ہے۔ تعلیم جن کے ایجنڈے میں سرفہرست تھی ان کے دور میں ملک کی کئی بڑی یونیورسٹیوں نے غریب اور کم وسیلہ طالب علموں کے لئے مختص سکالر شپ ختم کر دیئے ہیں اور اس کی وجہ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی ہے۔ مہنگائی سے مڈل کلاس کی چیخیں نکل گئیں تو غریب شہر کی حالت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ آج 25جولائی ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کو ایک برس ہونے کو ہے۔ اپوزیشن یوم سیاہ کے جلسے منعقد کر رہی ہے اور حکومت یوم تشکر منا رہی ہے ۔ غربت ‘ مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے ہوئے عوام اپنے مسائل کے جہنم میں جی رہے ہیں اور جن کی جیب پر آسمان کو چھوتی مہنگائی گراں نہیں گزر رہی وہ سوشل میڈیا کے تھڑوں پر بیٹھ کر اپنے اپنے سیاسی بت کو پوجتے ہوئے مخالف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ ہم جذباتی قوم ہیں ہمارا سیاسی بت اگر کامیاب جلسہ کر لے تو ہم اسے فاتح اعظم قرار دے دیتے ہیں۔اپنے سیاسی بت کے قدوقامت کو ناپنے کے لئے ہمارے پاس اس کی کارکردگی کا پیمانہ نہیں بلکہ بیرو میٹر یہ ہے کہ اس سے کتنابڑا جلسہ کیا۔ عمران خان نے کتنا بڑا جلسہ کیا۔ مریم نواز کے جلسے میں کتنے لوگ آئے؟ ہماری قوم کا سیاسی شعور بس جلسے جلوسوں تک محدود ہے، چونکہ جلسے ہی مقبولیت کا بیرو میٹر تصور کئے جاتے ہیں سو سیاسی مخالفین کے جلسوں کو روکنے‘ کچلنے اور عوام کی نظروں سے دور رکھنے کے بھی خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے ہیں۔ حکومت کے ایک برس میں کتنے وعدے پورے ہوئے۔ اس حساب دوستاں کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ خوابوں سے نارسا خوابوں کا ایک سفر ہے جو اب انگریزی کے Sufferمیں بدلتا جا رہا ہے۔ لیکن اس ایک سال میں یہ تو ثابت ہو گیا کہ ہمارے سلیبرٹی وزیر اعظم جلسے اور کامیاب جلسے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کیا لاہور پشاور اور کیا واشنگٹن ڈی سی سا ہر جگہ کپتان کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ وعدے پورے نہیں ہوئے تو کیا ہوا۔ بے روزگاری بڑھ گئی تو کیا ہوا۔ مہنگائی گلے کاٹتی ہے تو بھی کیا ہوا۔ کپتان کے کامیاب جلسے دیکھیں اور واہ واہ کریں۔ اک یہی بات ہے اچھی میرے ہر جائی کی۔