گزشتہ کالم ’’گڈ نیوز کلب‘‘ کے حوالے سے لکھا کہ مقصد اس کا یہ تھا کہ ہم اپنی اپنی زندگیوں میں موجود نعمتوں اور اچھی باتوں کا تذکرہ اپنی گفتگو میں شامل کریں زندگی کا روشن پہلو دیکھنے کی کوشش کریں۔ اس پر قارئین کا خوشگوار رسپانس سامنے آیا۔ جنہوں نے اپنی ای میلز میں اس ارادے کا اظہار کیا کہ اب ہم بھی اپنی زندگی میںایک گڈ نیوز کلب کی بنیاد رکھیں گے ۔کسی نے کہا کہ آپ اپنے گڈ نیوز کلب میں ہمیں بھی شامل کر لیں۔ کہنا ان سے یہ ہے کہ اس کا مطلب کوئی فارمل کلب بنانا نہیں بلکہ غیر رسمی طور پر آپ روزانہ جن لوگوں کے ساتھ بیٹھک کرتے ہیں گپ شپ کرتے ہیں بس ان کے ساتھ ہی ایک ارادہ بنا لیں کہ کم از کم گفتگو کا کچھ حصہ روز ہی اس کے لیے مختص کر دیں کہ جس میں آپ اپنی زندگی کے روشن‘ خوبصورت اور مثبت پہلوئوں پر بات کریں۔ یقین جانیں یہ ڈیپریشن کی بھی ایک موثر تھراپی ہے۔ کیونکہ زندگی کے مثبت رخ کو سیکھنا‘ نعمتوں کا احساس کرنا ‘دراصل شکر گزاری ہی کی ایک قسم ہے اور شکر گزاری انسان کو مثبت توانائی سے بھر دیتی ہے۔ تو چلیے آج کا کالم بھی ہم ایسی ایک خوش آئند بات سے شروع کرتے ہیں اس وقت پنجاب کی کابینہ میں اگر کوئی شاندار شخصیت نظر آتی ہے تو وہ بلا شبہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی ہے۔ ان کے لیے تو ہم جیسے لوگوں کے دلوں میں خواہش تھی کہ انہیں وزارت اعلیٰ کا قلمدان دیا جاتا۔ تو وہ پورے پنجاب کے لیے ایک بہترین وزیر اعلیٰ ثابت ہوتیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحبہ کو ان کے پیشہ ورانہ پس منظر کے حوالے سے وزارت صحت کا قلمدان سونپا گیا اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ فیصلہ انشاء اللہ بلیسنگ ان ڈس گائز (Blessing in disguise)ثابت ہو گا۔ صحت کا شعبہ انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ بدقسمتی سے اہل اقتدار اور اہل اختیار نے اسے ہمیشہ نظر انداز کیا۔ اس لیے کہ خود وہ اپنی چھینک اور کھانسی کا علاج بھی لندن اور دبئی کی بہترین محفوظ علاج گاہوں سے کرواتے ہیں۔اسی طرح معاشرے کا امیر طبقہ ہے وہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کی بھاری فیس ادا کر کے اپنا علاج کروا لیتا ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں کے برآمدوں میں رلنے اور خوار ہونے کے لیے کم وسیلہ ضرورت مند طبقے کے مریض رہ جاتے ہیں۔ جس ملک کی آبادی کا 40فیصد سے زیادہ طبقہ خط غربت سے نیچے ہو ‘وہاں آپ اندازہ لگا لیں کہ ایسے مریضوں کی تعداد کتنی زیادہ ہو گیا جن کی جیب میں دوا لینے کو پیسے نہیں ‘ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے کے لیے رقم نہیں۔ایسے غریب اور تہی کیسہ اہل وطن پر بیماری کسی عذاب کی طرح آتی ہے ۔بیماری اور مہنگے علاج کے ہاتھوں سفید پوش طبقے کی مشکلات ناقابل بیان ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جس نے اپنی انا کا بھرم کسی نہ کسی طور سلامت رکھا ہوتا ہے۔ دال سبزی اور سادہ رہن سہن کے ساتھ اپنے محدود ذرائع آمدنی میں مہینے کے تیس دن کسی طور گزار ہی لیتے ہیں لیکن اگر سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو بیماری‘ آپریشن اور میڈیکل ٹیسٹوں سے واسطہ پڑ جائے تو زندگی ان کے لیے عذاب ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ بیچارے اپنے اندر بیماری پالتے رہتے ہیں۔ اچھا علاج افورڈ نہیں کر سکتے‘ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ پرائیویٹ ڈاکٹروں کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ ان کے نصیب میں سرکاری ہسپتالوں میں خواری ہی لکھی ہوتی ہے ۔وہ بھی اب نام کے سرکاری ہسپتال ہیں ۔بس ڈاکٹر کی فیس نہیں ہوتی باقی دوائیں ٹیکوں اور ڈرپس کا خرچہ وہاں بھی غریب مریضوں پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ تو پھر کاہے کے سرکاری ہسپتال؟ یہ ہے صحت کے شعبے کی المناک صورت حال جسے اہل اقتدار نے ہمیشہ نظر انداز کیا۔ اب ڈاکٹر یاسمین راشد کے وزیر صحت بننے سے امیدوں کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کو وزارت کا قلمدان سنبھالے کم و بیش دس روز ہوئے ہیں اور ان دس دنوں میں ہی انہوں نے کچھ بہترین فیصلے کئے ہیں۔ خدا کرے ان فیصلوں پر عملدرآمد بھی ممکن ہو۔ امید تو یہی ہے کہ یہ بہترین فیصلے صرف اخبارات کی ہیڈ لائنز اور وزارت صحت کی فائلوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ ان دس دنوں میں دو اہم فیصلے جو ڈاکٹر صاحبہ کی وزارت نے کیے ہیں ان میں پہلا تو ہیلتھ انشورنس سکیم کو پورے پنجاب میں لاگو کرنا ہے ۔ہیلتھ انشورنس سکیم پنجاب کے کم آمدنی والے طبقے کے لیے لائی جا رہی ہے تاکہ انہیں بیماری میں علاج کی بہترین سہولتیں میسر آ سکیں۔ گزشتہ حکومت نے بھی ہیلتھ کارڈز جاری کئے تھے لیکن جن خوش نصیبوں کو یہ ہیلتھ کارڈز ملے ان کی تعداد آٹے میں نمک کے مترادف ہو گی۔ ایسی سکیموں کا اعلان بس ہیڈ لائنز بنانے اور وقتی واہ واہ کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ پانامہ کیس کا مسئلہ جن دنوں اٹھا نواز شریف نے اندرون سندھ کے کئی دورے کیے ٹنڈو آدم کے ایک دورے کے دوران اعلان کیا کہ پورے سندھ میں ہیلتھ کارڈ کا آغاز کیا جا رہا ہے اور آغاز صرف جلسے میں اعلان تک محدود رہا۔تو کہنا یہ ہے کہ قوم نے ایسے خوش کن سیاسی اعلانات تو پہلے بھی بھگتے ہیں ۔اب تو لوگ صرف اور صرف عمل کے میدان میں ہی حکومت کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرا بڑا اعلان جو ڈاکٹر یاسمین صاحبہ نے کیا وہ یہ ہے کہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر کی نئی پالیسی کے مطابق وہ ہر حاملہ خاتون جو سرکاری ہسپتال میں آئے گی اس کا بطور مریض ان کا داخلہ وہاں لازمی قرار دیا گیا ہے اس کے لیے حاملہ خاتون اور ان کے لواحقین کو کسی درخواست یا سفارش کی ضرورت نہیں ہو گی اور ساتھ ہی اگر اس خاتون کو کسی دوسرے ہسپتال منتقل کرنا ہو گا تو ہسپتال کی ایمبولینس بمع طبی عملے کے حاملہ خاتون کے ساتھ جائے گی۔ وزارت کے پہلے ہی ہفتے میں یہ دونوں اعلانات بہت اہم ہیں اور ان کا ڈائریکٹ تعلق پاکستان کے ایک عام شہری کی بہبود کے ساتھ ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایسے افسوسناک واقعات ہوئے کہ مائیں ہسپتال کی راہداریوں میں گیٹ پر بچوں کو جنم دے رہی ہیں اور وجہ یہی کہ غریب مریضوں کو ہسپتال کے ایم ایس یا دیگر ڈاکٹروں نے داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ امید ہے کہ اب غریب سفید پوش پاکستانی مائوں کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک نہیں ہو گا۔ڈاکٹر صاحبہ ایک خاتون اور پھر ایک نامور گائنا کالوجسٹ ہیں وہ ضرور اس شعبے میں بہتری لائیں گی۔ اس سے پہلے خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دورسے دور حکومت میں 94,93ء میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا شاندار نیٹ ورک پورے پاکستان میں قائم کیا گیا ماں اور بچے کی پرائمری صحت کے حوالے سے یہ نظام اتنا کامیاب رہا کہ اس پر باہر کی یونیورسٹیز نے باقاعدہ ریسرچ پیپرز بھی شائع کیے۔ گزشتہ دور حکومت میں مگر پنجاب کی اپنی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مال روڈ پر تین دن دھرنا دینا پڑا اور وجہ یہی کہ چند ہزار تنخواہ پانے والی خواتین احتجاج کر رہی تھیں کہ انہیں مستقل کر دیا گیا ہے مگر ان کے واجبات گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب حکومت نے ادا نہیں کیے وعدے وعید بہت ہوئے مگر عملی طور پر یہی ہوا کہ لاہور کی سڑکوں پر سینکڑوں لیڈی ہیلتھ ورکر اپنے حق کے لیے خوار ہوتی رہیں۔ اب امید ہے صورت حال بہتر ضرور ہو گی۔ صحت کے شعبے کو مشنری جذبے کے ساتھ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا تعلق ایک عام غریب سفید پوش پاکستانی کے ساتھ ہے جس کی حالت سنوارنے کے دعوے پاکستان تحریک انصاف نے کیے۔ اب ڈاکٹر یاسمین راشد کے آنے سے امید افزا صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ صرف باتیں نہیں ہو گی کام بھی ہو گا۔ ادا جعفری کے الفاظ میں ہم نے یہی عرض کرنی ہے کہ ؎ جھولی میں کچھ نہیں ہے اک آس ہی رہے ایسی خبر سُنا کہ دلوں کا زیاںنہ ہو!