گزشتہ صدی رونقِ بازار اور گرمئی بازار کی صدی ہے، جسے عرفِ عام میں صارف کی دُنیا "Consumer World" کہا جاتا ہے۔ صارف یعنی اشیاء کو خریدنے یا استعمال کرنے والے کو مسلّمہ تجارتی اُصول کے تحت ’’بادشاہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بزنس ایڈمنسٹریشن اور مارکیٹنگ کی تمام نصابی کتب میں یہ فقرہ آپ کو آغاز میں ہی مل جائے گا۔ "Consumer is the King"۔ خریدار یا صارف بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ کی پسند و ناپسند کے مطابق ہی مال تیار کیا جاتا ہے۔ مارکیٹ دراصل نام ہی اس جگہ کا ہے جہاں لوگوں کی پسند کے مطابق مال لا کر رکھا اور بیچا جاتا ہے۔ جو مال اکثریت کی نظروں سے گر جائے، اس کی جگہ مارکیٹ یا بازار میں باقی نہیں رہتی۔ شروع دن سے ہی، مال بیچنے والا اپنے مال کی تعریف و توصیف کے بے شمار انداز اپناتا رہا ہے تاکہ ’’بادشاہ‘‘ اس کا مال رغبت سے خرید سکے۔ تحمل و برداشت مال بیچنے کے بنیادی رویوں میں سے سمجھے جاتے ہیں۔ ایک خاتون اپنی پسند کے کپڑے کی تلاش میں دکاندار سے درجنوں تھان اُلٹ پَلٹ کروا دے اور آخر میں یہ اعلان کرے کہ، اسے ایک بھی پسند نہیں آیا، تو ایسے میں دکاندار ماتھے پر بَل ڈالے بغیر، صرف اتنا کہے گا۔ ’’آپ اپنی پسند بتا دیں، میں مہیا کرنے کی کوشش کروں گا‘‘۔ صارف کے اسی شاہانہ مزاج کو لبھانے اور اُسے مال کی خریداری کی ترغیب دینے کیلئے ہی ایڈورٹائزنگ کا پیشہ ایجاد ہوا۔ انسان نے ہمیشہ مال بیچنے کے سو طریقے اپنائے، یہاں تک کہ گلیوں میں سودا بیچنے والے بھی مدتوں خوبصورت آواز میں گا کر مال بیچا کرتے تھے۔ دِلّی کی تہذیب کی جو تصویر کھینچی جاتی ہے اس میں نرم و نازک ککڑیاں بیچنے والا بھی ایسی آواز لگاتا تھا ’’ککڑیاں ہیں۔ لیلیٰ کی اُنگلیاں ہیں، مجنوں کی پسلیاں ہیں‘‘۔ لیکن ڈیڑھ صدی پہلے تک، ہر ہنر مند اپنے مال کی تعریف و توصیف خود ہی کرتا تھا کیونکہ وہی تو تھا جو اس کے محاسن اور خوبیوں سے آشنا ہوتا تھا۔ لیکن دُنیا بھر سے لوٹ مار کرنے کے بعد جب اُنیسویں صدی میں یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں نے ڈھیر ساری دولت اکٹھا کر لی تو وہاں صنعتی انقلاب آ گیا۔ اب جولاہے کی کھڈی سے پاور لوم اور ٹیکسٹائل مل وجود میں آئی تو بازار میں براہِ راست مال بیچنے والے ہنر مند اور خریدار کا آپس میں رشتہ ہی ختم ہو گیا۔ مال بنانے والا اور مال بیچنے والا دونوں مختلف ہو گئے۔ لوہار، ترکھان، جولاہا، سُنار اور کمہار کی دستکاری والی چھوٹی چھوٹی دکانوں کی جگہ اب بڑی بڑی مارکیٹوں نے لے لی۔ ان مارکیٹوں میں اب بیک وقت کئی ہنر مندوں کا کام اور کئی فیکٹریوں کا مال موجود ہوتا۔ اس گرم بازاری میں اس صارف یعنی ’’بادشاہ‘‘ کو کسی ایک مال کے خریدنے پر مجبور کرنے کیلئے جس فن نے عروج پکڑا، اُسے ’’مارکیٹنگ‘‘ کہتے ہیں۔ شروع شروع میں یہ ویسے ہی گا کر ککڑیاں بیچنے والے کی طرح بالکل سادہ تھا۔ لیکن صنعتی انقلاب اور کارپوریٹ کلچر کی کوکھ سے جنم لینے والے معاشرے نے اسے ’’وجودِ زن‘‘ سے رنگین بنانے کا ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے دو اہم مقاصد پورے کئے۔ ایک تو جب خاتون اپنے تمام عشوۂ و اداء کے ساتھ مال بیچنے کیلئے میدان میں اُتری تو پھر کون تھا جو اس کے دام میں آسانی سے نہ پھنس جاتا۔ رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں اِدھر جاتا ہے دیکھیں یا اُدھر پروانہ آتا ہے عورت جس کے عشوۂ و دِلربائی نے صدیوں بازارِ حُسن آباد کئے رکھا، جس کے وجود نے شاعروں کی شاعری اور نغمہ گروں کی نغمگی کو دوام بخشا۔ یہی خاتون بقول اقبالؒ، زندگی کا سوزِ درُوں، جب 1911ء میں ایڈورٹائزنگ کی دُنیا میں ’’شمع محفل‘‘ کے طور پر داخل ہوئی تو اسے مرکزِ نگاہ بنانے کے پسِ پردہ مقاصد میں صرف مال بیچنا ہی نہیں تھا، بلکہ اس خاتون کو ایک ایسے نمونے، آدرش اور آئیڈیل کے طور پر پیش کرنا تھا جو روایتی گھریلو زندگی میں ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے کرداروں سے بغاوت کرتی ہوئی بالکل الگ اور جدید معاشرتی، معاشی اور اقتصادی زندگی کے کرداروں میں ڈھلی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پہلا اشتہار جس میں عورت جلوہ گر ہوئی اس کا کیپشن "Caption" معنی خیز تھا کہ ’’کاش میں ایک مرد ہوتی‘‘۔ اس عورت کے ہاتھ میں سگریٹ پکڑا کر اس کے مرغولوں میں اسے یہ سوچنے کی راہ دکھائی گئی کہ وہ ایک پائلٹ، انجینئر، بزنس ایگزیکٹو، سرجن، کوہ پیما، یہاں تک کہ ریسلنگ چیمپئن بھی بن سکتی ہے۔ ایسا کرنے اور اس طرح کے اہداف کیلئے عورتوں کو مائل کرنے کے پیچھے ایک بہت گھنائونی مادہ پرست سوچ کارفرما تھی۔ صنعتی انقلاب کی وجہ سے دھڑا دھڑ ملیں اور کارخانے لگ رہے تھے جن میں مزدوروں کی ضرورت دن بدن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ مرد جنگوں میں مارے جانے کی وجہ سے کم ہو چکے تھے۔ چارلس ڈکنز (Charles Dickens)کا ناول آلیور ٹوئسٹ (Oliver Twist) جو 1838ء میں چھپا، ایک ایسے یورپ کا نقشہ کھینچتا ہے جس کے کارخانوں میں معصوم کم عمر بچے کام کرتے تھے اور ان کے کام کا دورانیہ عموماً اٹھارہ گھنٹوں تک پھیل جاتا تھا۔ نیند کے مارے بچے کبھی مشین کے پٹوں پر لڑھک کر جان دیتے اور کبھی کارخانوں کی گرم گرم چمنیاں صاف کرتے جسم پر آبلے ڈلوا لیتے۔ مزدوروں کی کمی، کمائی کا لالچ اور کارخانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو پورا کرنے کیلئے عورت کو کام میں لگانا ضروری تھا۔ یوں خاندان میں موجود عورت کو بھی کامیابی، عزت، ذاتی شہرت اور مرد کا ہر میدان میں مقابلہ کرنے کے نام پر باہر نکالا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے جیسے بھی اشتہارات بنائے گئے، ان کے پسِ پردہ، عورت کو معاشرتی اور خاندانی زنجیروں کو توڑنے کا درس پوشیدہ تھا۔ امریکہ کی پانچ بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک میسا چوسٹ (Massachuets) ہے۔ اس یونیورسٹی میں امریکہ کی مشہور مصنفہ جوڈتھ فری مین(Judith Freeman) جب زیر تعلیم تھی تو اس نے اپنا ایم اے کا تھیسز (Thesis) ایڈورٹائزنگ اور عورت کے حوالے سے لکھا جس کا عنوان تھا۔ "The Distorting Image: Women & Advertizing 1900 to 1960" (تصور کو مسخ کرنا: عورت اور اشتہار بازی 1900 سے 1960ء تک) اس تحقیق کا عنوان ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ان ساٹھ سالوں میں عورت کو اشتہار بازی میں استعمال کر کے اس کے قدیم روایتی تصور کو برباد کر کے رکھ دیا گیا۔ اس تحقیق میں جہاں اور بہت سے حیران کن اور خوفناک نتائج برآمد ہوئے، وہیں اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ایڈورٹائزنگ نے تاریخ کا رُخ موڑ کر رکھ دیا۔ وہ لکھتی ہے، جنگ کے بعد تباہ حال گھرانوں کی بحالی کیلئے عورتوں کی اشد ضرورت تھی لیکن ہوا یہ کہ "Women with Children were flocking to the work place in record number" ۔بچوں والی خواتین یعنی مائیں جن پر بچے پالنے کی ذمہ داری تھی وہ بہت بڑی تعداد میں کارخانوں میں ایک ریوڑ کی طرح جمع ہونے لگیں۔ یوں عورت کی اس خاندانی نظام سے بغاوت کو کارپوریٹ معاشرے میں عظیم درجہ عطا کیا گیا۔ اس کا اظہار نازوانداز اور عشوۂ و اداء کا استعمال ’’شمع محفل‘‘ بنا دی گئی عورت کے ذریعے ہر اشتہار میں کروایا گیا۔ ایڈورٹائزنگ کی سو سالہ تاریخ میں دس ایسے اشتہارات ہیں جنہوں نے معاشرے میں عورت کے کردار کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس میں پہلا اشتہار ایک ایئر لائن "TWA" کا ہے جس کی خاتون پائلٹ کو سیڑھیاں اُترتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور اس کے نیچے لکھا ہوتا ہے "Who says, "it's Man's world" ’’کون کہتا ہے کہ یہ مردوں کی دُنیا ہے‘‘۔ یہ اشتہار دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آیا تھا، جبکہ آخری اور دسواں اشتہار "Dare to Stem" 2020ء میں آیا ہے، جو جدید عورت کو کائنات کی وُسعتوں کو تسخیر کرنے کیلئے ترغیب دیتا ہے۔ یہ ہے اس صدی کی مختصر کہانی ، جسے ایڈورٹائزنگ میں انقلاب کی صدی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس ایڈورٹائزنگ کا مرکز و محور وہی ہے جو انسانی تاریخ کے سب سے پرانے پیشے، جسم فروشی کی ترغیب کا تھا۔ یعنی عورت کا ناز و انداز و اداء اور دلربائی …اسی عشوۂ طرازی کو استعمال کر کے جو چاہے بیچ لو، جسے چاہے خرید لو، جسے چاہے اُجاڑ دو اور جس کو چاہے آباد و شاد کر دو۔(ختم شد)