لشکریوں میں وہ سفید ریش بوڑھا بھی تھا جو بھی اسے دیکھتا احترام سے پیش آتا اورتعظیم دیتا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی معززاور اہم شخص ہے وہ اسکے آرام کا حتی المقدور خیال رکھ رہے تھے لیکن سفر تو سفر ہوتا ہے ان تکالیف کی وجہ سے ہی وہ اسے ساتھ لے جانے کے میں ہچکچا رہے تھے راستہ طویل اور مہم خطرناک تھی ۔سفری صعوبتوں کا تقاضہ تھا کہ لشکر میںشامل افراد تنومند اور صحت مند ہوں لیکن یہ سفید ریش انصاری بھلا کس طرح رک سکتا تھا اس نے آقائے نامدارﷺ کا یہ قول سن رکھا تھا کہ تم لوگ ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے اور فاتح لشکر اور اسکا امیر کیا ہی اچھے لوگ ہوں گے ۔۔۔ اس بشارت کے بعد وہ کیسے رک سکتا تھااگر چہ وہ نبیﷺ کے شہر کا مکین تھا اور مکین بھی ایسا کہ سرکار دو عالم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ آتے ہیں مدینے کی بچیاں دف بجا کر خیر مقدمی گیت گاتی ہیں ہر شخص سرکارکی میزبانی کے لئے بے چین ہوتا ہے سب سرکارﷺ کی راہ میں آنکھیں بچھائے منتظر ہوتے ہیں کہ سرکار ﷺ ان کے مہمان ہوجائیں اور مہمان اس مسئلے کا حل یوں نکالتے ہیں کہ جہاں میری اونٹنی رک جائے گی وہی قیام ہوگا اور یہ اونٹنی اس انصاری کے دروازے پر جاٹھہرتی ہے ،یہ رتبہ یہ اعزاز اس انصاری کی بخشش کے لئے بہت کافی نہ تھا ؟ شائد کوئی ہم جیسا ہوتا تو وہ کافی سمجھتا لیکن وہ ہم جیسے ہی تو نہ تھے اسی لئے قسطنطنیہ کی طرف بڑھے چلے جارہے تھے ،لشکر قسطنطنیہ پہنچا یہ اس وقت دنیا کا محفوظ ترین شہر اورایک عالمی قوت کا دارالحکومت تھا،اس کو کہیں سمندر کے گہرے پانیوں نے اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا اور کہیں مضبوط چار دیواری نے، کل کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول میںوہ مضبوط فصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ لشکر کے ساتھ موجود اس سفید ریش مجاہد کی طبیعت بگڑ گئی جو سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی انہیں بھی اندازہ ہو گیا کہ اب زندگی کی مہلت ختم ہونے کو ہے انہوں نے وصیت کی کہ مجھے یہیں فصیل شہر کے جتنا قریب ہو دفنایا جائے کچھ دنوں میں اس بوڑھے مجاہد کی روح آخری ہچکی لے کرقفس عنصری سے پرواز کر گئی مجاہدین نے اپنے بزرگ ساتھی کی وصیت کے مطابق ان کی نعش لی اور شہر کے قریب کھنچی فصیل کے پاس جا پہنچے صلیبیوں سے کہا کہ ہمارا ایک معزز ساتھی انتقال کرگیا ہے اسکی وصیت کے مطابق یہاں تدفین کررہے ہیں دیکھو کوئی شرارت نہ کرنا اس وقت کے صلیبی آجکل کے ’’مسلمانوں ‘‘ جیسے نہ تھے انہوں نے یہ سنا تو چڑھی کمانوں سے تیر اتار لئے کہ مرنے کے بعدکسی سے کیا اور کیسی دشمنی ،اس بزرگ مجاہد کی خواہش کے مطابق وہان تدفین عمل میں آئی اور آج بھی استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار اسی شان سے موجود ہے ۔ترک انہیں عقیدت اور احترام سے ’’ایوب سلطان ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ترکی کی سرکاری خبر رساں نیوز ایجنسی انادولو نے ادلب میں ’’مسلمانوں ‘‘ کے ہاتھوں پانچویں خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ اور انکی اہلیہ کی قبر کی بے حرمتی کی خبرنے دل مسوس کر رکھ دیایقین کرنے کو جی نہیں چاہا لیکن خبر کا ذریعہ صرف ترک نیوز ایجنسی ’’انادولو‘‘ ہی تو نہ تھی ’’الجزیرہ‘‘ بھی یہی رپورٹ کر رہا تھا سوشل میڈیا پر تباہ کئے گئے مزار کی تصاویر پھیلا دی گئی ہیں،لکھتے ہوئے دل کانپتا ہے کہ جنونی انتہا پسندوں نے ان کی قبرہی نہ ڈھائی بلکہ مزار کو آگ بھی لگا دی ،قومی روزناموں کے مطابق بدبخت ان کی قبر یں کھود کر باقیات تک نکال کر لے گئے،ایک وڈیو بھی دیکھی جاسکتی ہے جس میں ایک کمینہ فطرت شخص قبر پر کھوپڑی رکھے انگلی میں سگریٹ دابے استہزایہ انداز میں اس سے باتیں کررہا ہے ،شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے بھی اس خبر کو بڑے’’ اہتمام ‘‘سے نشر کیا ہے اس خبر پر عالم اسلام مشتعل اور مضطرب ہے اور بجا طور ہونا بھی چاہئے کہ شام میں مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ اب بات اصحاب رسول ﷺ کی قبروں تک پہنچ گئی ہے یہ وقت بھی آنا تھا کہ اصحاب رسول ﷺ کے قبریں کھود ی جائیں،یہ خبر بھی سننی تھی کہ ان کے مزارات کو آگ لگادی گئی۔۔۔یہ دل چیر دینے والی اطلاعات بھی آنی تھیں کہ ان کی ہڈیوں کو تھیلوں میں ڈال کر قبروں کومحض خالی گڑھا بنا کر چھوڑ دیا گیا۔۔۔ اور یہ سب کیا بھی توکس کی قبر کے ساتھ؟ اس عمر بن عبدالعزیز ؓ کی قبر کے ساتھ کہ جسکے دو سال پانچ ماہ کی خلافت نے اپنوں کیا بیگانوں کو بھی ان کا گرویدہ کر لیا،جس نے تخت کو ٹھکرا یاا ور مجبورا ذمہ داری قبول بھی کی تو شان و تمکنت پرانے لباس کی طرح کہیں پرے رکھ دی ۔ بات عمربن عبدالعزیز ؓ اور ان کی اہلیہ کی قبور کی بے حرمتی کی نہیں ہے ،شام کے شہرادلب میں محض خلیفہ پنجم کی قبر نہیں کھودی گئی ایک بڑی خوں ریزی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے شام میں مصروف عمل مسلح ملیشیاؤں کو اگر نتھ نہ ڈالی گئی توشام سے اٹھنے والے شعلے عالم اسلام کو لپیٹ میں لے لیں گے وہ آگ لگے لگی کہ بجھائے نہ بجھے میرادل تو یہ سوچ سوچ کر ہی ہول رہا ہے کہ ان وحشیوں کی اگلا قدم کیا ہوگا ؟ محترم مولانا ضیاء چترالی کے بقول شام میںمیرے نبی ﷺ کی عزت حرمت ہماری مائیں ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ،ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ بھی آسودہ ء خاک ہیں ،یہاں ابولدارداء انصاری انکی اہلیہ ام الدرداء کی قبور ہیںیہاں معاویہ بن ابی سفیان ،یزید بن ابی سفیان کے مزارات ہیں،یہاں اوس بن سعد انصاریؓ کی آخری آرام گاہ ہے اور یہیں سیدنا خالد کے بھائی حرملہ بن الولید کی قبربھی ہے تو کیا ۔۔۔۔ سوچ کر جھرجھری آجاتی ہے خدا کرے کہ کوئی انادولواب ایسی خبر جاری نہ کرے ،سوشل میڈیا پر کوئی ایسی ہولناک وڈیو وائرل نہ ہو،مسلم ممالک کو شام پر ایران کی مدد سے حاکم بشار الاسد پر دباؤ ڈالنا ہوگا ایران سے مدد کی درخواست کرنی ہوگی کہ اس خبر کے بعد کوئی اور اایسی خبر سننے کو نہ ملے، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور انکی اہلیہ کے باقیات واپس لی جائیں اور اسی احترام سے قبر میں رکھی جائیں یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو مسلکی بنیادوں پر قتال کا خوفناک سلسلہ شروع ہوسکتا ہے جسکی تباہیاں عرب و عجم میں تفریق نہ کریں گی خون بہے گا اور بے بہا بہے گا!