ہر کوئی اپنی دُکان از سر نو سجا رہا ہے، اپنی پٹاری میں سے وہ سارے ہنر نکال کر کائونٹر پر رکھ رہا جو اس منڈی میں کام آتے تھے۔ چالیس سالوں کے دوران جہاں افغانستان کی وجہ سے پاکستان میں اور بہت کچھ ہوا وہاں بے شمار لوگوں کا ایک گروہ ایسا ضرور پیدا ہوا، جس نے افغان جہاد اور پھر افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران امریکہ اور عالمی طاقتوں کو شیشے میں اُتار کر کمانا سیکھا۔ جس دن پہلے سوویت فوجی نے افغانستان کی سرحد عبور کی، پاکستان میں سرمایہ کاری حاصل کرنے، عالمی برادری کی نظروں میں معتبر ہونے اور عسکری وسائل کو مضبوط بنانے جیسے مواقع کا دروازہ کھل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور اس کے زیر سرپرست گروہوں نے یہ دروازہ پھر بند نہیں ہونے دیا۔ سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں جس طرح حکومتی سطح پر ہمیں امریکہ نے مالا مال کیا، اس کی مثال گذشتہ پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن ان دس سالوں میں اس ملک کے این جی او سیکٹر نے بھی خوب کمایا۔ ان دنوں این جی او سیکٹر مشرف بہ اسلام ہوا کرتا تھا۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد تھوڑا سا وقفہ ضرور آیا، دُکانیں بند ہونے لگیں، صلاحیتوں کو زنگ لگنے لگا۔ اس لئے کہ خود امریکہ ہی اس دن مارکیٹ سے آئوٹ ہو گیا تھا، جس روز آخری روسی سپاہی افغانستان سے نکلا تھا۔ مجاہدین کا آپس میں قتل و غارت اور طالبان کے پانچ سالہ اقتدار میں ان حضرات کا کاروبار پھر چمکنے لگا۔ اُسامہ بن لادن کی افغانستان میں موجودگی، القاعدہ اور دیگر گروہوں کا وہاں آرام سے رہنا، ان این جی اوز اور سول سوسائٹی کیلئے ایک نعمت تھی، تاکہ وہ اپنے تھنک ٹینکوں کے ذریعے بڑی بڑی رپورٹیں تیار کریں اور مغربی دُنیا کو خوفزدہ کرتے رہیں۔ ایسا کچھ زوروں پر چل رہا تھا اور پوری دُنیا میں طالبان فوبیا اپنے عروج پر تھا کہ نائن الیون ہو گیا۔ ایک دَم اس طبقے کے جیون میں نئے مواقع کی بہار آ گئی۔ اس دفعہ تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے سب کے سب اکٹھے ہو گئے۔ وہ جو 1979ء میں سوویت یونین کا نظریاتی پرچم تھامے ہوئے تھے، امریکہ اور یورپ کو استعماری قوتیں تصور کرتے ہوئے اور سوویت یونین کی مدد سے قائم افغان حکومت کے ساتھ تھے، جب انہوں نے اردگرد دیکھا تو دُنیا میں اب امریکہ کے سوا کوئی پوجنے کو باقی ہی نہیں رہ گیا تھا، پھر کیا تھا، ایک دَم اپنا سارا ماضی بھلا کر سب کے سب امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ اس دن کے بعد سے اب تک کے بیس سال ان سب کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں تھا۔ حکومتِ پاکستان نے بھی اپنے قومی مفاد کو بھلا کر جس تیزی سے امریکی مفاد کی ٹرین پکڑی، اس کے نتیجے میں اسے اربوں ڈالر کی بخشیشں تو مل گئی لیکن ستر ہزار شہریوں کے خون اور پورے ملک میں دہشت گردی کی آگ نے اسے دہلا کر رکھ دیا۔ عام آدمی بھگتتا رہا، مگر این جی اوز اور سول سوسائٹی کا دھندا برابر چلتا رہا۔ ہر کوئی امریکی مفادات کی راہ ہموار کرنے والے مقاصد کے ساتھ ایک این جی او رجسٹرڈ کرواتا، کوئی تھنک ٹینک بناتا، کسی قسم کی ریسرچ کرتا اور اسلام آباد میں موجود سفارت خانوں میں کھلی کھڑکیوں سے مسلسل اور مستقل امداد وصول کرتا۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں عالمی طاقتوں سے سرمایہ بٹورنے والوں میں ہر طبقہ خیال کے لوگ شامل تھے۔ یہاں تک کہ اسلام کے مرنجا مرنج اور ’’سافٹ امیج‘‘ کی ترویج کیلئے لاہور کے کونسل خانے میں متعین کونسلر برائن ڈی ہنٹ نے مشائیخانِ کرام کو مزارات کی مرمت و تزئین و آرائش کیلئے کروڑوں روپے عطا کئے۔ کسی عالم نے دہشت گردی کو خارجیوں والی احادیث کی تطبیق سے طویل فتویٰ تحریر کیا تو وہ مغربی ممالک کا منظورِنظر ہو گیا، تو کسی نے پاکستان کی سیکولر اشرافیہ کو جمع کر کے سول سوسائٹی کا ایک بہت بڑا گروہ تخلیق کیا، تو اس کی عورتوں کی پناہ گاہ سے لے کر قانونی سروسز تک عالمی طاقتوں کی فنڈ لسٹ میں آ گئے۔ غرض دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مُلاّ اور ملحد دونوں ایک گھاٹ پر پانی پیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی آج سے پانچ سال قبل امریکہ نے افغانستان سے جانے کے اشارے دینا شروع کئے تو سب کے سب چِلاّ اُٹھے، ’’ایسا ظلم مت کیجئے گا۔‘‘ بھارت سے لے کر افغان حکومت تک اور پاکستانی سیکولرز سے لے کر سنٹرل ایشیاء کے حکمرانوں تک سب کو ایسے لگا جیسے ان کے سروں سے کوئی آسمان کھینچ لے گا۔لیکن وہ امریکہ جو اس دلدل میں آن پھنسا تھا، جس کے پائوں اس دھرتی پر جل رہے تھے،اسے معلوم تھا کہ اس کا مزید یہاں رہنا اس کیلئے کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس کی فوج کے بائیس سپاہی روز خود کشی کر رہے تھے۔ چار لاکھ کے قریب فوجی ایسے تھے جو بدترین ذہنی مرض کا شکار ہو کر کہ ہسپتالوں پر بوجھ تھے،جن کا سالانہ خرچہ 60 ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ امریکہ چلا گیا۔اس نے جاتے ہوئے اپنے وفاداروں میں سے کسی ایک کی بھی نہ سنی۔جن افغان لیڈروں نے بیس سال اس کیلئے خون دیا،انہیں طالبان سے مذاکرات کے دوران چوکیدار کے طور پر بھی کمرے میں کھڑے نہیں ہونے دیا گیا۔ جس بھارت، ایران،تاجکستان اور ازبکستان نے اس جنگ میں اس کیلئے سہولت کاری کی،ان کی بھی نہ سنی گئی۔ جس پاکستان نے ان کو اڈے فراہم کئے،جہاں سے 57 ہزار دفعہ ان کے جہاز اُڑے،اسے بھی مجبوراً اس لئے شامل کیا تاکہ طالبان مذاکرات کی میز پر ٹکے رہیں۔ امریکہ جا چکا۔ اس وقت 223 اضلاع پر طالبان کا کنٹرول اور افغان حکومت کا 68 اضلاع پر غلبہ باقی ہے۔ لیکن ایک سال پہلے یعنی امریکہ سے طالبان کے معاہدے کے فوراً بعد ہی وہ جن کو اپنی دُکانوں کے بند ہونے کا خطرہ تھا، انہوں نے ایک خوفناک منظر نامہ پیش کر کے امریکہ کی ٹانگ واپس کھینچنے کی کوشش شروع کر دی۔ طالبان جو اس بات کی ضمانت دے چکے تھے کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، انہی کی افغانستان میں حکومت کو بہانہ بنا کر کہا گیا کہ اب پاکستان میں تحریک طالبان مضبوط ہو جائے گی۔ وہ تحریک طالبان جس کے بارے میں کئی سال پہلے سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کی کمر توڑ دی گئی ہے اور اب وہ یہاں سے بھاگ چکی ہے۔ داعش جو خالصتاً ایک عرب نژاد تنظیم ہے اور عراق و شام میں بھی اس کے بکھرے ہوئے ارکان اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے، اس کو یہ تجزیاتی نابغے اپنی خواب نگری میں پاکستان لا چکے ہیں۔ عالمی برادری کو ڈرایا جا رہا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کا اقتدار مستحکم ہو گیا تو پاکستان میں ٹی ٹی پی، بھارت میں کشمیری مجاہدین، چین میں ترکستان اسلامی پارٹی اور تاجکستان، ازبکستان میں ان کے جہادی گروہ اُٹھ کھڑے ہوں گے، پھر دیکھنا وہ یورپ اور امریکہ کو کیسے ہراساں کرتے ہیں۔ یہ منظر نامہ وہ پھیلا رہے ہیں جن کا دھندا ٹھپ ہونے والا ہے، جن کی روزی پر لات پڑنے والی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کو خوف دلا کر یہاں روک لیا جائے تاکہ ڈالروں کی برسات جاری رہے۔ لیکن دولت کی ہوس میں اندھے ان لوگوں کو علم ہونا چاہئے کہ امریکہ اپنے لئے ’’خوف‘‘ خود تخلیق کرتا ہے اور پھر خود اس جنگ میں ناپ تول کر کودتا ہے۔ سرد جنگ میں اس نے کیمونزم کا ’’خوف‘‘ پھیلایا اور نائن الیون کے بعد اسلام کا ’’خوف‘‘۔ اگر پاکستان کی ریاست یا سول سوسائٹی نے اسلامائزیشن کا خوف دلا کر امریکہ کو یہاں روکنے کی کوشش کی تو امریکہ کی نظروں میں صرف ایک ہی ’’خوف‘‘ ہے جس کا بہانہ بنا کر وہ یہاں رُکے گا اور وہ ہے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا شدت پسندوں کے ہاتھ میں چلے جانے کا خوف۔ اگر اس خوف کی بنیاد پر امریکہ یہاں رُک گیا تو پھر اسے نکالنے کیلئے طالبان جیسا ’’توّکل‘‘ اور کم از کم بیس سال درکار ہوں گے۔کیا ہم ایسا کرنے کے قابل ہیں۔