اور بھی مجبور ہوتا جا رہا ہوں میں زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہوں میں آئینہ تھا آ گیا میں پتھروں کے شہر کیا گلہ جب چور ہوتا جا رہا ہوں میں ہمارے خان صاحب کی سوئی بھی اس پر اڑ گئی ہے کہ نواز شریف کو واپس لائیں گے۔ یعنی کھلائیں گے پلائیں گے اور ان سے کرپشن منوائیں گے۔ یہ الگ بات کہ این خیال است و محال است بلکہ وبال است۔آپ جتنی مرضی قافیہ آرائی کر لیں مگر جب تک سخن میں مضمون پھیکا ہے تب تک شاہکار بننے کا نہیں۔پتہ نہیں اس بیان سے چودھری شجاعت کے عزم کی بازگشت کیوں سنائی دے رہی ہے کہ وہ کہتے تھے پرویز مشرف کو دس بار بھی وردی کے ساتھ لے کر آئیں گے۔ خان برطانیہ کو دوبارہ خط لکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے اس سے کئی خط یاد آ گئے خاص طور پر جو خط افتخار چودھری نے سوس حکومت کو لکھوانا تھا کہ اس میں قوم کے اڑھائی سال غارت ہوئے۔ پھر میمو گیٹ سکینڈل والا خط بھی کس کو بھولا ہو گا اور ماضی قریب میں قطری شہزادے کا خط۔ اچانک مجھے ظہور نظر یاد آ گئے: وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر آخر خط میں اسے میں نے لکھا کچھ بھی نہیں مجھے معلوم ہیں کہ میرے پیارے قارئین کہتے ہونگے کہ میں اتنے زیادہ سنجیدہ معاملے کو شاید مذاق میں اڑا رہا ہوں۔ مگر میں تو دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ مذاق تو ہمارا اڑایا جا رہا ہے۔ عوام بے چارے مہنگائی مہنگائی چیخ رہے ہیں۔ وہ حفظ و امان پر برے طریقے سے پریشان ہیں اور وہ اپنے بچوں کے مستقبل پر عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔مگر حرام ہے کہ کوئی ان کی دل جوئی کرے کوئی ان کی پریشانیوں کا تدارک کرے یا کوئی ان کی اذیت کو کم کرے ۔وہ کوئی نہ کوئی نیا ایشو یا پھر وہی پرانا ایشو نیا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا۔اب شہباز شریف تو آپ کے ہاتھ میں ہیں ان سے تو آپ کچھ منوا لیں کچھ نکلوا لیں اور کچھ اگلوا لیں۔ آپ کے سارے شور شرابے ہیں کمبل عوام کا کوئی لے جاتا ہے۔ ہائے ہائے! دشت کی پیاس بڑھانے کے لئے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لئے آئے تھے خان صاحب لوگ اپنی زندگی سے بے زار ہو رہے ہیں تو آپ کے بارے میں وہ کوئی خوش گمانی میں تو نہیں ہونگے۔ میں کبھی سوچتا ہوں کہ یہ آپ کے ٹائیگر وائیگر کون ہیں۔ نوجوان تو بے کار اور بے روزگار پھر رہے ہیں۔ جن کے پیٹ میں روٹی نہیں ہو گی اور پہننے کو کپڑے نہیں ہونگے تو وہ ڈاکے نہیں ڈالیں گے تو کیا کریں گے؟۔ سب داتا دربار جا کر لنگر تو نہیں لے سکتے۔خیر طعام و قیام کا تو آپ نے بھی سوچا اور مخیر حضرات کو ترغیب دی۔ ۔ مجھے پتہ ہے کہ بے حس مالداروں لوگوں کو یہ گرانی کے نوحے لکھنا اچھا نہیں لگتا۔ انہیں تو غریب لوگ بھی اچھے نہیں لگتے۔اظہار شاہیں کو تو کہنا پڑا تھا: کھلونو کی دکانوں راستہ دو میرے بچے گزرنا چاہتے ہیں یوسف مثالی نے کہا تھا لوٹنے والے کاش مری سچائی لوٹ کے لے جائیں۔بچے بھوکے سو جائیں تو کیا کرنا اعزازوں کا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے بل ڈبل ڈبل کر کے عوام کی جیبیوں سے پیسہ نکالا قرضوں کی آپ نے انتہا کر دی ‘امداد بھی باہر سے اتنی آئی پھر بھی آپ عوام سے زیادہ رو رہے ہیں کہ مارے گئے لٹے گئے۔ پھر بھی آپ عالمی سطح پر بھی ہاتھ پھیلا رہے ہیں کہ غریب ملکوں کے لئے 500ارب ڈالر کا خصوصی فنڈ قائم کیا جائے۔اب کیا کریں کہ کچھ ہم بھی ایسے ہی ہیں اور اسی سلوک کے مستحق ہیں۔ میرے دوست اشرف شریف نے کالم میں کہا کہ درندے اس وقت دوست ہیں جب تک بھوک نہیں ہے۔ چرندے اس کی خوراک اور زندگی ہیں۔مگر انسان کو ان درندوں کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا کیونکہ اس کی درندگی اس کی بھوک کی مرہون منت نہیں۔ وگرنہ وہ اربوں کھربوں کی جائیدادیں اور پھر ذخیرہ اندوزی وغیرہ نہ کرتا۔انسان ایسادرندہ ہے جس کا پیٹ بھرا ہو تو یہ زیادہ خطرناک ہے وہ خمار گندم میں بہت کچھ کر جاتا ہے۔ ملک کو بھی ان کھاتے پیتے لوگوں نے کھایا ہے ایک ہمارے دانش ور شوکت شریف نے خان صاحب کے لئے پوسٹ لگائی ہے آپ غریبوں کو زندہ کرنے کے لئے مارنے کے لئے آئے ہیں۔ امیروں کو 262فیصد مہنگی دوائوں سے فرق نہیں پڑے گا۔ غریب بغیر کھاتے ہی مر جائیں گے چلیے چھوڑیے حنا تیموری کا ایک شعر یاد آ گیا: کہتے ہیں لوگ تجھ کو مسیحا مگر یہاں اک شخص مر گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد غریب بے چارے کی قسمت ہی ایسی ہے ابھی ایک خبر نے اداس ک دیا کہ چھوٹے غریب بچے راستے میں ملنے والا ایک مارٹر گولہ بیچنے کے لئے لے گئے۔ کباڑیہ بھی تو بے چارہ ہی ہوتا ہے اس نے مارٹر گولے کو جانے بغیر اس ٹھوک بجا کر دیکھنا چاہا تو وہ لپٹ گیا پانچ لوگ جان سے گئے۔ یہ کوئی خدا سے شکوہ تو نہیں ہے۔ بس ایسے ہی افسوس کر دیا ہے۔ بہرحال اس المیے سے سیاستدان بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ وہ بھی کباڑیے کی طرح ہر قسم کی شے خرید لیتے ہیں کچھ معلوم نہیں کہ ان میں مارٹر کا گولہ کون نکل آئے۔ آخری بات یہی کرنی ہے کہ خان صاحب ادھر ادھر کی چھوڑیں کوئی کام کی بات کریں۔ کبھی وہ بین الاقوامی سیاست میں ثالث بننے چل پڑتے ہیں اور کبھی جنگ کی باتیں لے بیٹھتے ہیں۔ آپ عوام کی جنگ کا کچھ کریں جو غریب عوام بھوک کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ باقی آپ نے کس کو لانا ہے اور کس نے آنا ہے۔اچانک ابھی کسی نے خاص صاحب کی تصویر والا تراشہ بھیج دیا لکھا ہے ہمیں اساتذہ کی تنخواہیں بڑھانا ہونگی کیونکہ یہ ہماری قوم کے معمار ہیں۔دلشاد نسیم کا شعر: موسم نے مٹا ڈالا ہے ہر نقش پرانا جس پیڑ پہ لکھا تھا ترا نام نہیں ہے