لاہور ایئر پورٹ پر پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہائی سکیورٹی الرٹ کے باوجود انٹرنیشنل لائونج کے باہر مخالفین نے فائرنگ کرکے عمرہ کی ادائیگی کے بعد واپس آنے والے کو قتل کر دیا۔ فائرنگ کی زد میں آ کر ٹیکسی ڈرائیور بھی مارا گیا جو پانچ معصوم بچوں کا باپ تھا‘ ایئر پورٹ جیسے حساس علاقے میں فائرنگ اور قتل کے اس واقعہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سکیورٹی ہائی الرٹ کی قلعی کھول کر بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ آخر اے ایس ایف کہاں تھی؟ اسلحہ اور اسلحہ بردار ایئر پورٹ کے لائونج میں کیسے آئے ؟یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایئر پورٹ پر صرف ایک ہی سنسر لگا ہوا ہے اور وہ بھی دو سال سے خراب پڑا ہے۔ گاڑی جب ایئر پورٹ کی حدود میں آئی تو اسے چیک کیوں نہیں کیا گیا۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے مانیٹرنگ کیوں نہیں کی گئی ‘کیا ایئر پورٹ حکام کے پاس ان سب سوالوں کا جواب ہے‘ اب صورت حال یہ ہے کہ سارا ملبہ ادارے ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ قتل بھی ایک نہیں دو ہوئے ہیں جس میں بے گناہ ٹیکسی ڈرائیور بھی مارا گیا جس کا مخالفین سے کچھ لینا دینا نہیں تھا‘ اس قتل کا ذمہ دار کون ہے ‘ اس کے پانچ معصوم بچوں کو جواب دے گا۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ نے واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے لیکن جب تک غفلت برتنے والے سکیورٹی افسران‘ اہلکاروں اور ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں سزا نہیں دی جائے گی‘ حساس جگہوں پر مستقبل میں بھی ایسے واقعات پیش آنے کے خدشات بدستور موجود رہیں گے۔ تربیلا جھیل میں کشتی الٹنے سے ہلاکتیں ہری پور کے قریب تربیلا جھیل میں اوورلوڈنگ کے باعث کشتی الٹنے سے 45 افراد ڈوب گئے ہیںجبکہ15 افرادنے تیر کر جانیں بچائیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے حادثات میں سے 90 فیصد پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اکثر حادثات انتظامیہ کی غفلت کے باعث ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ کوئی حادثہ ہو تو انتظامیہ متحرک ہو جاتی ہے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع اور حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے دعوے کئے جاتے ہیں مگرجونہی معاملہ ٹھنڈا ہوتا ہے سرکاری ادارے مالی فوائد اور دیگر وجوہ پر آنکھیں بند کرکے عوام کو حالات اور مافیاز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ جھولے گرنے کے واقعات ہوں یا سیاحتی مقامات پر چیئر لفٹ کے حادثات، انتظامیہ کے اقدامات منظم سسٹم اور قواعد و ضوابط بنانے کے بجائے امدادی کاموں اوریقین دہانیوں تک ہی محدو رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تربیلا جھیل کی انتظامیہ کشتی میں استعداد سے زائد افراد ،یہاں تک کہ جانوروں کو لے جانے کی اجازت نہ دیتی۔ ماضی میں مری کے علاقے چھرہ پانی اور ایبٹ آباد جانے والی نجی چیئر لفٹ ٹوٹنے کے بعد وزیراعلیٰ نے انسانوں اور جانوروں کو ایک ساتھ بٹھانے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ گزشتہ روز تربیلا جھیل میں بھی 60 افراد کے ساتھ جانور سوار ہونے کے باعث حادثہ پیش آیا۔ بہتر ہو گا حکومت حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کے ساتھ قوانین پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے تاکہ معصوم جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔