حالیہ ایران امریکہ کشیدگی میں کیا بات زبانی کلامی بڑھکوں سے آگے بڑھ جائے گی اور کیا دنیا ایک عالمی جنگ کی طرف جارہی ہے یا ہمیشہ کی طرح کچھ کڑیاںاب بھی گم شدہ ہیں جن کے ملتے ہی جنگ کا فلیتہ آگ پکڑ لے گا۔ گزشتہ دنوں چند اہم واقعات ہوئے جو جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے تھے لیکن بات ٹل گئی کیونکہ بات ٹالنا ہی سب کے مفادمیں ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان زبانی بڑھکیں تقریبا اسی نوعیت کی ہیں جیسے شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان ہوتی رہی ہیں ۔ آپ نے دیکھا کہ شمالی کوریا پہ اب تک امریکہ نے حملہ نہیں کیا اور بات تجارتی پابندیوں تک ہی محدود رہی۔ درون خانہ شمالی کوریا جوہری تجربات کرتا رہا اور دنیا دکھاوے کے لئے اس نے اپنی ایک ایسی جوہری سائٹ بھی دھماکے سے اڑا دی جو پہلے ہی کام نہیں کررہی تھی۔آپ کو کیا لگتا ہے کہ امریکہ بہادر کو ایسی شعبدہ بازیوں سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے؟لیکن امریکہ بہادر کے پاس کرنے کے دوسرے کام بھی ہیں۔اور وہ ہے اسرائیل کی سرحدوں کا تعین اور مشرق وسطی میں ایران کے جمائے ہوئے پنجوں کو کسی حد تک اکھاڑ پھینکنا۔ الحمد اللہ ثم الحمد اللہ خاکسار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عرصہ پانچ سال سے مشرق وسطی بالخصوص شام کی صورتحال پہ لکھتی رہی ہوں اور اس سلسلے میں کئے جانے والے تجزئیے اب تک درست ثابت ہورہے ہیں۔میں نے عرصہ دراز قبل مشرق وسطی میں ایران کی مداخلت کے متعلق خبردار کیا تھا کہ مشرق وسطی میں بھڑکنے والی آگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔جس وقت عرب بہار نے شام کا رخ کیا اور بشار الاسد کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہوئی،ایران اور روس اس جنگ میں کود پڑے۔ مذہبی جذباتیت کو ایک طرف رکھے بغیر نہ صورتحال کا درست تجزیہ ممکن ہے نہ ہی وہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ کئی باتوں پہ حقیقی غور آپ کو بہت سی الجھنوں سے بچا لیتا ہے جن سے تعصب آپ کو نکلنے نہیں دیتا۔ میں لکھتی آئی ہوں کہ شام میں بشار حکومت کے خلاف مسلح بغاوت میں اسلامی اسٹیٹ یا داعش نے القاعدہ سے اپنا راستہ کیوں بدلا۔ اس کی بنیادی وجہ اصولی اختلاف تھا۔ القاعدہ سے علیحدہ ہونے والے گروپ جو آج تک شام میں بر سر پیکار ہیں،اس بات پہ یقین رکھتے تھے کہ بشار الاسد کے خلاف مشترکہ جدوجہد کامیاب بھی ہوئی تو اس کا فائدہ کسی اور کو ہوگا اور اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔انہیں ہلال ایران اس وقت بھی واضح نظر آرہا تھا جب اس کا وجود محض تجزیوں اور تبصروں میں تھا۔ وقت نے ثابت کیا کہ بشار الاسد کے خلاف مشترکہ جدوجہد جس میں سیکولر بھی شامل تھے جلد ہی مسلکی جنگ میں بدل گئی اور ایران بشار کی حمایت میں کھل کر کود پڑا۔حزب اللہ کو شام میں کھلی چھوٹ دی گئی اورمل جل کر چن چن کر ایسے گروپوں کا خاتمہ کردیا گیا جو القاعدہ سے علیحدہ ہوئے تھے۔ میں نے بارہا لکھا تھا کہ کس طرح شام کا ایک ایک قصبہ سنی جہادی گروپوں سے واگزار کیا جارہا ہے۔اس کھیل میں حزب اللہ کے ساتھ روس ، امریکہ اور ترکی بھی شامل رہے۔شام کی صورتحال کی ٹائم لائن کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ جغرافیائی اعتبار سے جھڑپوں کی ترتیب کیا رہی۔ اس دوران اسرائیل خوامخواہ درمیان میں کودتا رہا اورشام میں قائم حزب اللہ کے عسکری اڈوں کو نشانہ بنانے کی خالی خولی دھمکیاں دیتا رہا۔ایک آدھ بار اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کے لئے با قاعدہ بمباری بھی کی۔ چند روز قبل اسرائیل کی جانب سے دمشق پہ میزائل حملہ ناکام بنانے کا شام حکومت کا دعوی بھی سامنے آیا۔ یہ اس وقت ہوا جب حالیہ ایران امریکہ کشیدگی کے آغاز پہ تل ابیب میں اسرائیل کے قیام کی تقریبات کے سلسلے میں گائیکی کے سالانہ عالمی مقابلے یورو وزن کا انعقاد ہورہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل جو روایتی حریف ہیں اور حالیہ کشیدگی میں اسرائیل ہی وہ ملک ہے جوایران کی طرف سے سب سے زیادہ خطرے میں ہو سکتا ہے،کشیدگی بڑھنے پہ مذکورہ واقعہ پہ نہ صرف خاموش رہا بلکہ اس تمام معاملے پہ اس نے ایک پراسرار چپ سادھی ہوئی ہے۔ادھر شام میں حمہ کے مقام پہ تحریرلشا م اور جماعت اسلامی ترکمانستان کے ساتھ بشار اتحادی افواج کی جھڑپیں ایک بار پھر شروع ہوگئی ہیں۔ میں شام کی قصبہ بہ قصبہ صورتحال اور ان کی ہلال ایران اور گریٹر اسرائیل کے سلسلے میں تزویراتی اہمیت کے متعلق قارئین کو آگاہ کرتی رہی ہوں۔ میں نے قصبہ البوکمال کے متعلق لکھا تھا کہ یہ غالبا شام میں برسرپیکار سنی گروپوں کاآخری گڑھ ثابت ہوگا اور جس دن البوکمال پہ قبضہ ہوگیا وہ ایران کا شام میں آخری دن ہوگا۔حماہ ان قصبوں میں سے ایک ہے جہاں ان گروپوں کے خلاف یہ آخری کاروائیاں جاری ہیں۔معلوم ہوتا ہے حزب اللہ شام میں ایک کے بعد ایک محاذ جاری رکھے گی تاکہ اس جنگ کو طول دیا جاسکے اور ایران کے خلاف کھلی جنگ ٹلتی رہے۔اب تک جو واقعات اس سلسلے میں ہوچکے ہیں وہ اتنے اشتعا ل انگیز ہیں کہ ان پہ ایران امریکہ جنگ چھڑ جانی چاہئے تھی لیکن ایسا ہوا نہیں ۔ان میں الفجیرہ پورٹ پہ حملہ اہم ترین تھا لیکن بات ٹل گئی۔ اس کے فورا بعد سعودی آئل ٹینکروں پہ حملہ ہواجو کسی بھی جنگ کے آغاز کے لئے عام طور پہ کافی ہوتا ہے لیکن بات ٹل گئی۔ اب حوثیوں نے مکہ اور جدہ پہ حملہ کیا ہے بات پھر بھی ٹل جائے گی۔ بات آخر سعودی عرب میں کس مقام پہ حملے سے نہیں رکے گی یہ مقام تشویش ہے ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے بہت ہلکے نوعیت کے محض الزامات پہ عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔کیا حسن اتفاق ہے کہ ایران کا ہر دشمن امریکہ نے خود اپنے ہاتھوں انجام کو پہنچایا۔عراق اور لیبیا کھنڈر بن گئے۔شام اور یمن میں ایران بذات خود بیٹھا ہوا ہے۔ہلال ایران روشن است۔بات صرف بحیرہ عرب اور خلیج فارس میں عرصے سے قائم امریکی بحری بیڑوں پہ کپڑا مارنے پہ رکی ہوئی ہے۔ جس وقت ایران امریکہ جوہری معاہدہ ہوا تھا خاکسار نے امن کی فاختاوں کے جشن میں یہ لکھ کر کھنڈت ڈال دی تھی کہ یہ دراصل ایران کو معاشی سہارا دینے کے مترادف ہے کیونکہ عین اسی وقت امریکہ کو شام میں حزب اللہ کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ میں نے دراصل اس وقت کے ری پبلکن سینیٹرز کا اوباما انتظامیہ کو لکھے خط کا حوالہ دیا تھا جس میں عین ان ہی خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ جوہری ڈیل درحقیقت ایران کو دی گئی ڈھیل ہے۔وقت نے ثابت کیا کہ یہی درست تھا۔ اب بھی یہ سارا جنجال صرف اس لئے ہے کہ ایران مشرق وسطی سے نکل جائے۔اسی شرط کو ٹرمپ آخری بار ایران پہ پابندیاں لگاتے ہوئے بیان کرچکے ہیں۔کھلی جنگ اس وقت ہوگی جب ایران ڈھٹائی پہ اڑا رہے گا اور دوسری طرف اسرائیل کی مستقل سرحدوں کا معاملہ نمٹ نہیں جاتا۔تب تک آپ ہلکی ہلکی بھوک میں ہلکا پھلکا ٹک کھاتے رہیں۔